مسجد پر حملہ ’دہشت گردی‘ ہے، کینیڈا کے وزیر اعظم
30 جنوری 2017خبر رساں ادارے روئٹرز نے کینیڈا کی پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس حملے میں ملوث ہونے کے شبے میں دو متشبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ اس کارروائی کے محرکات کیا تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق اتوار کی رات عبادت کے دوران تین حملہ آوروں نے یہ کارروائی سر انجام دی تاہم پولیس کے مطابق اس حملے میں دو افراد ملوث تھے۔
کینیڈا: مسلمان خواتین پولیس افسران کو حجاب پہننے کی اجازت
کینیڈا: ’سلامتی کے خدشات مسلمانوں کے ساتھ کشیدگی کا باعث‘
کینیڈا کی الیکشن مہم، قدامت پسند اسلام بیچ میں لے آئے
کیوبک سٹی کے اسلامک کلچر سینٹر پر جب یہ حملہ کیا گیا تو اس وقت وہاں تقریبا چالیس افراد عبادت کر رہے تھے۔ کیوبک پولیس کے صوبائی ترجمان نے چھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے، جن کی عمریں 35 اور ستر برس کے درمیان بتائی گئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس دوران آٹھ افراد زخمی بھی ہوئے جبکہ انتالیس محفوظ رہے۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کارروائی کو ’مسلمانوں کے خلاف ایک دہشت گردانہ حملہ‘ قرار دے دیا ہے۔ ٹروڈو کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں مزید کہا گیا، ’’کینیڈا کے مسلمان اس ملک کے معاشرے کا ایک اہم جزو ہیں۔ ہمارے ملک، شہروں اور کمیونٹیوں میں اس طرح کے بے حس اعمال کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
کینیڈا میں یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب ٹروڈو نے کہا کہ ان کا ملک مہاجرین کو پناہ دے گا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے یہ اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مہاجرین کو امریکا بسانے کا پروگرام معطل کرنے اور سات مسلم ممالک کے امریکا آنے پر پابندی عائد کرنے کے بعد دیا تھا۔
کینیڈا کے فیڈرل لبرل قانون ساز گریگ فرگوس نے بھی کیوبک میں واقع مسجد میں حملے کو ایک دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا۔ ’’یہ ایک دہشت گردانہ عمل تھا۔‘‘
ادھر امریکی شہر نیو یارک کے میئر نے کہا ہے کہ شہر کی مساجد کے تحفظ کے لیے سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا، ’’نیو یارک کے تمام شہری چوکنا رہیں۔ اگر آپ کچھ نوٹ کریں تو اسے رپورٹ کریں۔‘‘