مسلح افغان گروپ کے ساتھ امن معاہدہ جلد متوقع
14 مئی 2016کابل حکومت کی اعلیٰ امن کونسل کے نائب سربراہ عطاء الرحمان سلیم نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ حزب اسلامی کے مسلح دھڑے کے ساتھ معاہدہ کل اتوار 15 مئی کو مکمل ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے گزشتہ دو برس سے بات چیت جاری تھی۔
حزب اسلامی کے ایک سینیئر نمائندہ امین کریم کا بھی یہی کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ افغان صدر اشرف غنی حتمی معاہدے کی منظوری اتوار کے روز دے دیں گے۔
اے پی کے مطابق اس طرح کا معاہدہ صدر غنی کی کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے جو کابل حکومت کے خلاف لڑنے والے عسکریت پسندوں کے ساتھ امن قائم کرنے کے حامی ہیں۔ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی کوششیں جو پاکستانی حکومت کے تعاون کے ساتھ کی جا رہی ہیں ابھی تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی ہیں۔
حالیہ برسوں کے دوران عسکریت پسند گروپ حزب اسلامی بہت زیادہ سرگرم نہیں رہا۔ افغانستان میں سیاسی حوالے سے بھی اس گروپ کی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے تاہم افغان حکومت کے ساتھ اس کا معاہدہ ایک ایسی مثال بن سکتا ہے جو طالبان کے ساتھ مستقبل کے کسی معاہدے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق یہ گروپ کابل حکومت کے خلاف اپنی جنگ ختم کر دے گا، ملکی آئین کا احترام کرے گا اور دیگر تمام مسلح اور حکومت مخالف گروپوں کے ساتھ تعلقات ختم کر دے گا۔
حزب اسلامی کی سربراہی گلبدین حکمت یار کے پاس ہے جنہیں 1992 سے 1996 کے دوران جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران کابل میں ہزاروں انسانوں کو قتل کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں ہیں تاہم امین کریم کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں ہی کسی نامعلوم مقام پر ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق 25 نکاتی معاہدے کے مطابق وہ بہت جلد کابل واپس لوٹیں گے جہاں وہ اس معاہدے پر باقاعدہ دستخط کریں گے اور وہیں رہائش اختیار کریں گے۔
60 سال سے زائد عمر کے حکمت یار کو امریکا نے ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دے رکھا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے انہیں اسامہ بن لادن کے ساتھ بلیک لسٹ میں شامل کیا تھا۔ متوقع معاہدے کے مطابق افغان حکومت ان کا نام دہشت گردوں کی لسٹ سے خارج کرانے اور ان کے خلاف پابندیوں کے خاتمے کے لیے کوشش کرے گی۔