مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف بھارت میں تحقیقات شروع
8 جولائی 2016ڈاکٹر ذاکر نائک پر نفرت آمیز تقاریر کرنے کا الزام عائد کیے جانے کے حوالے سے بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے جمعہ آٹھ جولائی کے روز کہا، ’’ہم نے ذاکر نائک کی تقریروں کا نوٹس لیا ہے اور معاملے کی انکوائری کے لیے ضروری ہدایات بھی جاری کر دی ہیں۔ اس معاملے کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کی جائے گی اور مناسب کارروائی کے لیے ان کی تقریروں کی سی ڈیز کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔‘‘
اس سلسلے میں بھارتی وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا، ’’جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو ہم دہشت گردی پر کسی بھی قیمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور کوئی بھی کارروائی مروجہ قانون کے مطابق کی جائے گی۔‘‘
بھارت کے اقتصادی دارالحکومت ممبئی سے اپنی اسلامی سرگرمیاں جاری رکھنے والے ڈاکٹر ذاکر نائک ان خبروں کے بعد حکام کی طرف سے تفتیش کے دائرے میں آ چکے ہیں کہ ڈھاکہ میں دو جولائی کو ہوئے دہشت گردانہ حملے میں، جس میں چھ حملہ آوروں سمیت کم از کم بائیس افراد ہلاک ہوگئے تھے، ملوث کئی دہشت گرد ان کی تقریروں سے متاثر تھے۔
بھارتی ریاست مہاراشٹر کی صوبائی حکومت نے ڈاکٹر ذاکر نائک کی تقریروں کی انکوائری کے احکامات پہلے ہی جاری کر دیے تھے۔ صوبائی وزیر اعلیٰ کے ایک اعلان کے مطابق ڈاکٹر نائک کی تقریروں، ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ممبئی میں ان کے ادارے اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن (آئی آر ایف) کو ملنے والی مالی امداد کے ذرائع کی بھی چھان بین کی جائے گی۔
اسی دوران اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیر ایم وینکیا نائیڈو نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کی تقریریں قابل اعتراض ہیں۔ نائب وزیر داخلہ کرن رجیجو نے اشارہ دیا ہے کہ حکومت ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر غور کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ قانونی معاملہ ہے اور اس سے وابستہ ایجنسیاں مناسب کارروائی کریں گی۔‘‘ اپنے متنازعہ بیانات کے لیے مشہور ایک اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے ڈاکٹر ذاکر نائک کو ’نام نہاد سیکولر لیڈروں کی پیداوار‘ قرار دیتے ہوئے ایسے’دشمنوں‘ کو ملک سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسی کے ساتھ اس معاملے پر سیاست بھی گرم ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کے ایک پروگرام میں شرکت کی وجہ سے اپوزیشن کانگریس پارٹی کے سینیئر رہنما دگ وجے سنگھ بھی تنقید کی زد میں آ گئے ہیں۔ 2012ء میں ایک پروگرام میں دگ وجے سنگھ نے ڈاکٹر نائک کو ’امن کا سفیر‘ قرار دیا تھا۔
تاہم مسٹر سنگھ کا اپنادفاع کرتے ہوئے کہنا تھاکہ کیا ذاکر نائک دہشت گرد ہیں؟ کیا ان کے خلاف کوئی کیس ہے؟ کیا وہ کوئی مجرم ہیں؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ’آر ٹ آف لیوِنگ‘ کے سربراہ شری شری روی شنکر کا ڈاکٹر ذاکر نائک کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنا قوم پرستی ہو سکتا ہے تو ’میرا وہاں جانا ملک سے بغاوت‘ کیسے ہوسکتا ہے؟
انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کیا مسٹر سنگھ کا مالیگاؤں بم دھماکوں کی ملزم پرگیہ ٹھاکر سے ملاقات کرنا بھی قوم پرستی ہے؟ دریں اثناء حکمران جماعت بی جے پی کے رہنما کرٹ سومیا نے اس معاملے کو اٹھارہ جولائی سے شروع ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں اٹھانے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائک نے، جو ان دنوں عمرے کے لیے سعودی عر ب میں ہیں، ایک بیان جاری کرتے ہوئے اپنے خلاف ایسے تمام الزامات سے انکار کیا ہے کہ وہ اپنی تبلیغ کے ذریعے کسی بھی قسم کی شدت پسندی پھیلاتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’میرا ایک بھی خطاب ایسا نہیں ہے، جس میں میں نے کسی معصوم کی جان لینے کی بات کی ہو، خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بھارتی الیکٹرانک میڈیا ان کی تقریر کی ویڈیو کو سیاق و سباق سے الگ کر کے دکھا رہا ہے۔ ذاکر نائک نے مزید کہا، ’’نوے فیصد بنگلہ دیشی مجھے جانتے ہیں اور پچاس فیصد سے زیادہ میرے پرستار ہیں۔ مجھے اس حملے کے لیے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔‘‘
واضح رہے کہ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے سربراہ پچاس سالہ کوالیفائیڈ ڈاکٹر ذاکر نائک اسلام کے حوالے سے اپنی منطقی تقریروں کے لیے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ قوم پرستی، ہم جنس پرستی، اسامہ بن لادن اور دہشت گردی جیسے معاملات پر ان کے خیالات سے کئی لوگوں کو اختلاف بھی ہے۔ اس کے علاوہ ان پر مسلکی منافرت پھیلانے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
بعض امور پر مبینہ انتہا پسندانہ خیالات کی وجہ سے برطانیہ اور کینیڈا میں ذاکر نائک کی تقریروں پر پابندی بھی عائد ہے تاہم دنیا کے 125 ملکوں میں سیٹلائٹ کے ذریعے ان کی پِیس (امن) ٹی وی کی نشریات دیکھی جاتی ہیں۔ وہ انگریزی میں بڑی روانی سے اور منطقی انداز میں ادیان کے تقابلی مطالعے کے ساتھ اپنی بات کرتے ہیں، جس سے بالخصوص مسلم نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ خاصا متاثر ہے۔
مؤقر بھارتی روزنامے انڈین ایکسپریس نے 2010ء میں انہیں بھارت کی 100انتہائی مؤثر شخصیات میں سے ایک قرار دیا تھا جب کہ دنیا کی 500 انتہائی بااثر شخصیات کی فہرست میں بھی ان کا نام متعدد مرتبہ شامل کیا جا چکا ہے۔ 2015ء میں انہیں ’اسلامی دنیا کا نوبل پرائز‘ قرار دیا جانے والا سعودی عرب کا شاہ فیصل ایوارڈ بھی دیا گیا تھا اور یونیورسٹی آف گیمبیا انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نواز چکی ہے۔
اس دوران ڈاکٹر ذاکر نائک کے حامیوں نے ان کی کردار کشی کی مہم اور ان کے خلاف کسی بھی ممکنہ کارروائی کی مذمت کی ہے۔ نئی دہلی میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ میڈیا میں ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف شور اور مسلمانوں کے بعض طبقات کی طرف سے ان پر نکتہ چینی کے باوجود ڈاکٹر نائک کے خلاف کوئی ایسا ٹھوس ثبوت موجود نہیں، جو عدالت میں ثابت کیا جا سکے۔