مسلم اکثریتی روسی علاقوں میں شراب کے خلاف ’مہم‘
3 فروری 2011یوں تو شمالی قفقاذ میں پولیس اہلکار اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکار ہی شدت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں، تاہم اب ان کا ہدف شراب نوشی کرنے والے اور شراب فروخت کرنے والے بھی بن رہے ہیں۔
خبررساں ادارے روئٹرز نے شراب نوشی کی حوصلہ شکنی کے حوالے سے شمالی قفقاذ میں پیش آنے والے ایک واقعہ کا حوالہ دیا ہے، جو روس کے مسلم اکثریتی خطے اُنگشتیا کے ایک ہوٹل کے شراب خانے میں پیش آیا۔ وہاں ایک نقاب پوش سکیورٹی اہلکار نے جام تھامے ایک شخص کے کندھے پر اپنی AK-47 رائفل رکھتے ہوئے، اسے فوری طور پر وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا۔
بعدازاں اس سرکاری سکیورٹی اہلکار نے اس شخص اور اس کے ساتھیوں کو بار سے باہر نکال دیا۔ اس نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’ہمیں پتہ چلا ہے کہ باغی پھر سے سرگرم ہو رہے ہیں اور ہم کسی بھی طرح کے نقصان سے بچنا چاہتے ہیں۔‘
ابھی گزشتہ ہفتے ہی داغستان کے ایک علاقے میں ایک شراب خانے میں ہوئے بم دھماکے کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ بعدازاں باغیوں نے ایک بیان میں کہا کہ اس شراب خانے کے مالک کو بارہا خبردار کیا گیا تھا۔
باغیوں نے جماعت شریعت کے نام سے قائم اپنی ویب سائٹ پر بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے، ’بہت جلد شراب کے گند سے بھری جگہوں کو تباہ کر دیا جائے گا۔‘
گزشتہ برس شمالی قفقاذ کے علاقے میں شراب فروخت کرنے والے تقریباﹰ ایک درجن مراکز پر بم حملے ہوئے، یا وہاں فائرنگ کے واقعات بھی پیش آئے، جنہیں دراصل مسلح اسلام پسندوں کی جانب سے خطے میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی کوششوں کا حصہ بتایا جاتا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف بلوچ