'مسلمان کی زندگی مشکل ہوتی، تو پھر ان کی آبادی کیوں بڑھتی؟'
11 اپریل 2023بھارت کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے ملک میں مسلمانوں کے خلاف جاری مبینہ تشدد اور تفریق کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض ایک خیال ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے مودی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک میں مسلمانوں کی زندگی مشکل ہوتی تو ان کی آبادی میں اضافہ نہیں ہوتا۔
بھارتی مسلمانوں کی وزیر داخلہ سے ملاقات میں تشدد کے واقعات پر اظہار تشویش
واشنگٹن میں پیٹرسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس میں خطاب کے دوران انہوں نے یہ باتیں کہیں۔ اس دوران انہوں نے پاکستان پر بھی شدید نکتہ چینی کی۔
گزشتہ ماہ امریکی حکومت کی ایک رپورٹمیں کہا گیا تھا کہ مودی حکومت ایسے بھارتی مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنا رہی ہے، جو حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور ان کے گھروں اور معاش کو تباہ کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کرتی ہے۔
بھارتی ریاست آسام میں مسلمانوں کے خلاف 'بلڈوزر کلچر‘
بھارتی وزیر نے کیا کہا؟
امریکی تھنک ٹینک پیٹرسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے صدر ایڈم ایس پوسن نے بھارتی وزیر سے سوال کیا کہ کیا ملک میں مسلم اقلیتوں کی حیثیت اور ان کے خلاف ہونے والے تشدد کے تئیں مغرب میں جو ایک فکر پائی جاتی ہے، اس پر انہیں کوئی تشویش ہے؟
بھارت میں تعلیمی گرانٹ کے خاتمے پر مسلمان طالب علم پریشان
اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا: بھارت دنیا میں دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے اور یہ آبادی تعدادکے لحاظ سے بڑھ رہی ہے۔''
بھارت میں ہزاروں مسلم کنبوں کو بے گھر کردیے جانے کا خدشہ
ان کا مزید کہنا تھا: ''اگر یہ خیال ہے، یا حقیقت میں ان کی زندگی مشکل ہے یا پھر ریاست کی مدد سے ان کی زندگی کو مشکل بنایا جا رہا ہے، جو بہت سی تحریروں میں بھی مضمر ہے، تو پھر میرا سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر سن 1947 کے بعد مسلمانوں کی جو آبادی تھی اس میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟''
کورونا وبا سے متعلق مذہبی منافرت میں بھارت سر فہرست، رپورٹ
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے میں پاکستان کا نام لینا چاہتی ہوں، جس کا وجود ساتھ میں ہی ہوا تھا اور ''گرچہ اس نے اسلامی ملک ہونے کا اعلان کیا تاہم اقلیتوں کے تحفظ کی بات کہی تھی۔ تاہم وہاں تو ہر اقلیتی برادری کی تعداد کم ہوتی رہی ہے۔''
انہوں نے کہا: ''اگر میں سخت الفاظ استعمال کروں تو پاکستان میں اقلیتیں ختم ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ وہاں مسلمانوں کے کچھ فرقے بھی ختم ہو چکے ہیں۔ جب کہ بھارت میں آپ کو مسلمانوں کا ہر طبقہ اپنا کاروبار کرتے ملے گا، ان کے بچے تعلیم پا رہے ہیں اور انہیں فیلو شپ سے نوازا جا تا ہے۔''
بھارتی وزیر کا کہنا تھا کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں الگ الگ حکومتیں ہیں اور امن و قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں کی ہے، ''تو یہ کہنا کہ مسلمانوں کو متاثر کرنے کے لیے ملک بھر میں تشدد برپا کیا جا رہا ہے، اپنے آپ میں غلط ہے۔''
ان کا کہنا تھا: ''اس سب کی ذمہ داری بھارتی حکومت پر عائد کرنا درست نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر میں یہ پوچھتی ہوں کہ کیا سن 2014 سے اب تک مسلمانوں کی آبادی میں کوئی کمی آئی ہے۔ کیا کسی ایک خاص برادری میں اموات کی شرح زیادہ رہی ہے؟ ''
بھارتی وزیر نرملا سیتا رمن نے کہا کہ لوگوں کو بھارت آ کر ایک نظر ڈالنا چاہیے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے بجائے اس کے کہ ''ان لوگوں کے خیالات سنیں جنہوں نے ملک کا دورہ کیے بغیر ہی اپنی رپورٹیں پیش کر دیں۔''
عالمی برادری کو تشویش
ابھی گزشتہ ماہ ہی امریکی حکومت کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت میں مودی حکومت ایسے بھارتی مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنا رہی ہے، جو حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور ان کے گھروں اور معاش کو تباہ کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کر رہی ہے۔
اس میں کہا گیا کہ ایسی مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بھارت میں حکومت یا اس کے ایجنٹ ماورائے عدالت قتل کرنے جیسے واقعات بھی انجام دیتے رہے ہیں اور ملک میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد اور زیادتیوں کے واقعات پیش آتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ کہتی رہی ہیں کہ سن 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال کافی بگڑتی جا رہی ہے اور وہ اس پر تشویش کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات مسلمانوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ مودی حکومت پر نکتہ چینی کرنے والے بھی بارہا یہ کہتے رہے ہیں کہ ان کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت سن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی معاشرے کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کے عمل کو کافی فروغ دیا ہے۔