1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلمان حملہ آور ہیں تو حملوں کا نشانہ بھی ہیں، تبصرہ

Rainer Sollich / امجد علی18 اپریل 2016

اس سوال پر آج کل یورپ میں بہت جوش و خروش کے ساتھ بحث جاری ہے کہ آیا اسلام اور تشدد لازم و ملزوم ہیں۔ ایک مطالعاتی جائزے میں اس کے برعکس نتائج سامنے آئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے رائنر زولِش کا لکھا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/1IXt7
Haddsch Pilgerfahrt
تصویر: AFP/Getty Images

یہ سوال پوچھا بجا طور پر جا سکتا ہے کہ اسلام اور تشدد کے مابین کیا ربطِ باہمی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ نمایاں طور پر بہت سے اسلامی تشخص رکھنے والے ممالک جنگوں، دہشت گردی اور تشدد کی دیگر صورتوں کا شکار ہیں۔ اسلام کے حوالے سے مرکزی تاریخی اہمیت کا حامل عرب خطّہ اس رجحان سے خاص طور پر دوچار ہے۔ اِدھر برسلز اور پیرس جیسے بڑے یورپی شہروں میں دہشت گردانہ حملے بھی بظاہر ’اسلام کے نام پر ہی‘ کیے جا رہے ہیں۔ ماہرین کی نظر میں ایسے نوجوانوں کے ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور اس جیسے دیگر گروپوں کی انتہا پسندانہ سوچ سے متاثر ہو جانے کا خدشہ خاص طور پر زیادہ ہے، جنہیں اپنے اچھے مستقبل کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔

عرب نوجوان شدت پسندی کے مخالف، سروے

ایسے میں قابلِ توجہ ہیں اُس سروے کے نتائج، جو ایک امریکی انسٹیٹیوٹ نے دبئی میں قائم ایک ایجنسی کے تعاون سے شائع کیے ہیں اور جس میں خطّے کے سولہ ملکوں کے تین ہزار پانچ سو عرب نوجوانوں سے مختلف سوالات پوچھے گئے۔ ان میں سے 78 فیصد کا کہنا یہ تھا کہ وہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی جانب سے مقابلتاً کم تشدد روا رکھے جانے کی صورت میں بھی اُس کی حمایت نہیں کریں گے۔ پچاس فیصد سے زائد نے یہ رائے دی کہ آئی ایس مشرقِ وُسطیٰ اور شمالی افریقہ کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اُن نوجوانوں کی شرح بھی اتنی ہی تھی، جنہوں نے یہ کہا کہ اُن کے ملکوں میں مذہب کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ سروے کس حد تک ایک نمائندہ سروے ہے لیکن اس کے نتائج کو نظر انداز بہرحال نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس طرح کے حساس موضوع میں ہمیں چیزوں کو زیادہ گہرائی میں جا کر دیکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔

کیا اس سروے سے ہم یہ سیکھیں کہ اسلام اور تشدد باہم مربوط نہیں ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ آج کے دور میں تشدد کو جائز قرار دینے کے لیے کسی بھی دوسرے مذہب کے مقابلے میں اسلام کا سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور حملے کرنے والے اس امر کے بھی قائل ہیں کہ وہ اچھے مسلمان ہیں۔ اسلام کو تشخص کا مسئلہ یقیناً درپیش ہے کیونکہ انتہا پسند اکثر اور کامیابی کے ساتھ اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس مسئلے کو بہت سے عرب ملکوں میں ابتر اقتصادی اور سماجی صورتِ حال کا ہی نتیجہ قرار دینا بھی مناسب نہیں ہو گا۔

Sollich Rainer Kommentarbild App
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار رائنر زولِش

ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی چھاپ رکھنے والے معاشرے خود کو اندر سے جدید خطوط پر اُستوار کریں اور مذہب کی ایک ایسی تفہیم کو رواج دیں، جو عالمگیریت سے ہم آہنگ ہو۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سے عرب ملکوں اور یورپ کی مسلمان کمیونٹیز میں اس کا امکان کم ہی ہے کہ لوگ اصلاحات پسند مسلمانوں کی آواز پر کان دھریں گے کیونکہ وہاں قدامت پسند سوچ کے حامل عناصر کو غلبہ حاصل ہے۔ ان قدامت پسند عناصر کے لیے آج کل بڑا چیلنج اصلاحات پسند نہیں بلکہ وہ سیاسی انتہا پسند ہیں، جو مذہبی نعروں کو ہوشیاری سے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور قدامت پسندوں سے بھی زیادہ ’اسلامی‘ ہونے کے دعویدار ہیں۔

’اسلام‘ اور ’مسلمان‘ کی بجائے ’انسان‘ پیشِ نظر رکھا جائے

یورپ اس سروے کے نتائج سے بہرحال اتنا ضرور سیکھ سکتا ہے کہ ہمیں معاملات کو ’اسلام‘ یا ’مسلمانوں‘ کے حوالے سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ ہم ’انسانوں‘ کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ مسلمان اگر حملے کرنے والے ہیں تو ساتھ ساتھ وہ اس صورتِ حال کا نشانہ بھی بن رہے ہیں۔ ’عرب بہار‘ کی ناکامی کے بعد سے تو وہ مظلوم زیادہ ہیں۔ کسی بھی اور مذہب کے ماننے والوں کو جنگوں اور دہشت گردی کی وجہ سے اتنا زیادہ جانی نقصان نہیں اٹھانا پڑا، جتنا کہ اسلام کے ماننے والوں کو۔ اسی طرح کسی بھی دوسرے خطّے میں اتنا زیادہ استحصال اور آمرانہ حکومتیں نہیں ہیں، جتنی کہ اُس مرکزی خطّے میں، جو اسلام کا گہوارہ رہا ہے۔

لیکن کیا اس سب کا تعلق اسلام سے ہے؟ جو کوئی بھی ایسا سوچتا ہے، اُسے پھر اس بات پر بھی یقین رکھنا چاہیے کہ مسلمان خاص طور پر شوق سے اپنا سیاسی استحصال کروانا پسند کرتے ہیں یا یہ کہ اُنہیں دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بننے کی بڑی خواہش ہوتی ہے۔

بلا تفریق تمام مسلمانوں کو قصور وار سمجھنا یورپ کی سب سے بڑی غلطی ہو گی۔ ایسا کرنا داعش کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہو گا، جو پہلے ہی مسلمانوں اور غیر مسلموں میں خلیج کو وسیع تر کرنا چاہتی ہے۔ ایسا کرنے سے اُن چیلنجوں سے نمٹنا بھی مشکل ہو جائے گا، جو یورپی معاشروں میں پناہ کے متلاشیوں کی ایک بڑی تعداد کی آمد کے باعث سامنے آ رہے ہیں۔ ہم یورپیوں کو انسانوں کو صرف اُن کے مذہب کی روشنی میں دیکھنے کا سلسلہ ختم کرنا ہو گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید