ہر بھارتی شہری ہندو ہے، موہن بھاگوت
7 ستمبر 2021بھارت کی سخت گیر ہندو تنظیم آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ ملک کے مسلمانوں کو انتہا پسندی کے خلاف کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ تاہم مسلم قیادت کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کو یہ نصیحت پہلے ہندوؤں کو کرنی چاہیے۔
بھارت کی سخت گیر قوم پرست ہندو تنظیم آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے سربراہ موہن بھاگوت نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ ہندو اور مسلمان ایک ہی نسب سے ہیں، اور اس نوعیت سے ہر بھارتی شہری ’ہندو‘ ہے۔
اس حوالے سے ان کے ماضی کے بیان پر پہلے بھی تنازعہ کھڑا ہو چکا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوسرے نظریات کی توہین کر رہے ہیں۔ پونے میں وہ ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے، جس کا عنوان تھا، ’’پہلے ملک، ملک سب سے اوپر۔‘‘ حکومت کی ایما پر ہونے والے اس پروگرام کا انعقاد گلوبل اسٹریٹیجک پالیسی فاؤنڈیشن نامی ادارے نے کیا تھا۔ اس میں بعض مسلم اسکالر کے ساتھ ساتھ دفاعی امور کے ماہرین، آر ایس ایس کارکنان اور کشمیر کے طلبہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
مسلمانوں کے لیے نہیں بھارت کے غلبے کے لیے فکر کرو
آر ایس ایس کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ مسلم قیادت کو بنیاد پرستی کے خلاف بات کرنے کی ضرورت ہے،''اس کام کے لیے طویل المدتی کوششوں اور صبر کی ضرورت ہو گی۔ یہ ہم سب کے لیے ایک طویل اور سخت امتحان بھی ہو گا۔ جتنی جلدی ہم شروع کریں گے، ہمارے معاشرے کو اتنا ہی کم نقصان پہنچےگا۔‘‘
اس کی ترغیب دیتے ہوئے موہن بھاگوت نے کہا،’’لفظ ہندو مادر وطن، آبا و اجداد اور بھارتی ثقافت کے مساوی ہے۔ یہ دوسرے خیالات کی توہین کے لیے نہیں ہے۔ ہمیں بھارتی غلبے کے حوالے سے فکر مند ہونے کی ضرورت ہے، مسلمانوں کے غلبے کے بارے میں نہیں۔‘‘
اسلام حملہ آوروں کے ساتھ آیا
موہن بھاگوت کا مزید کہنا تھا کہ بھارت میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعے آیا، ’’یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور اسے اسی انداز میں بیان کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ مسلم برادری کے سمجھدار رہنماؤں کو انتہا پسندی کی مخالفت کرنی چاہیے۔‘‘ موہن بھاگوت نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک سپر پاور ہے اور وہ کسی کی بھی پرواہ نہیں کرے گا۔
مسلمانوں کا صبر و تحمل
بھارتی مسلم اسکالر اور دہلی اقلیتی کمیٹی کے سابق سربراہ طفرالاسلام کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارت میں جو صورت حال ہے اس میں آر ایس ایس سربراہ کو انتہا پسندی کے حوالے سے مسلمانوں کو مشورہ دینے کے بجائے ہندو تنظیموں کو دینا چاہیے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’بھارت میں آئے دن ہندو انتہا پسند گروپ مسلمانوں کو کھلے عام تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ مسلمان تو خاموش ہیں اور وہ ایک غیر مثالی صبر و ضبط کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بھارتی ہندوؤں کی دہشت گردی تو سب پر عیاں ہو چکی ہے، تاہم انہیں کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ اس لیے موہن بھاگوت پہلے اپنی ہندو تنظیموں کو دہشت گردی سے باز آنے کی نصیحت کریں۔‘‘
’بھارت میں اسلام صوفیا کرام نے پھیلایا‘
ظفرالاسلام کا مزید کہنا تھا کہ موہن بھاگوت بھارت میں اسلامی تاریخ سے متعلق بھی کذب گوئی سے کام لے رہے ہیں اور اسلام حملہ آوروں کے ساتھ بھارت نہیں پہنچا، ’’بھارت میں اسلام صوفیاء کرام نے پھیلایا اور مسلم حکمرانوں کی آمد سے بہت پہلے ہی اسلام خطے میں پہنچ چکا تھا۔ مسلم حکمرانوں نے کبھی بھی اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی کوشش نہیں کی۔‘‘ انہوں نے اس کی ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ تاریخی اعتبار سے بھارت کی سب سے پہلی مسجد جنوبی ریاست کیرالا میں ہے، جہاں مسلم حکمرانوں نے کوئی حملہ نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں آر ایس ایس جیسی سخت گیر تنظیموں پر آئے دن تنقید ہوتی رہتی ہے اس لیے بھارت کی یہ ہندو تنظیمیں اس طرح کا پروگرام کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ بہت اعتدال پسند ہیں،’’تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام ہندو تنظیمیں اور بھارت کی ہندو قوم پرست حکمراں جماعت مسلمانوں کو دبانے کے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔‘‘
آر ایس ایس کے سربراہ نے یہ بیان ایک ایسے وقت دیا ہے، جب بھارت میں طالبان کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ بعض حلقوں نے طالبان کی پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ بیشتر خاموش رہے ہیں۔ حال ہی میں نغمہ نگار جاوید اختر نے طالبان کو وحشی بتایا تھا تاہم انہوں نے آر ایس ایس کا موازنہ بھی طالبان سے کیا تھا۔