1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشال خان کے قتل کا مرکزی ملزم گرفتار

9 مارچ 2018

پاکستانی پولیس کے مطابق اس نے دو برس قبل مردان یونیورسٹی میں توہین مذہب کے غلط الزام کے تحت تشدد کر کے مار دیے جانے والے طالب علم مشال خان کے قتل کے مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ ملزم دو برس سے روپوش تھا۔

https://p.dw.com/p/2u2Xz
Pakistan Proteste nach Lynchmord Student Mashal Khan
تصویر: picture-alliance/AP/F. Khan

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں اپریل 2017ء میں پیش آنے والے اس واقعے میں لوگوں کو مشال خان کے خلاف بھڑکانے والے شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ضلعی پولیس افسر سعید خان نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ عارف خان نامی یہ شخص اپریل 2017ء سے روپوش تھا۔

مردان یونیورسٹی میں طلبہ کی طرف سے شدید تشدد کر کے 23 سالہ طالب علم مشال خان کو جان سے مار دیا گیا تھا۔ تاہم یہ بات بعد میں واضح ہوئی کہ اس پر لگایا جانے والا یہ الزام غلط تھا کہ اس نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد پوسٹ کیا تھا۔

یہ گرفتاری ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب چند روز قبل ہی ایک اپیل کورٹ نے اُن 25 مشتبہ افراد کو دی گئی تین تین برس قید کی سزا کو معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا جن پر الزام تھا کہ وہ مشال خان پر تشدد کرنے والوں میں شامل تھے۔

فروری میں ایک انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے مشال خان قتل کیس میں ایک شخص کو سزائے موت جبکہ پانچ دیگر کو عمر قید کی  سزا سنائی تھی۔ اپیل کورٹ کی طرف سے اِن سزاؤں میں کوئی رد وبدل نہیں کیا گیا۔

Pakistan | Student Mashal Khan von Kommilitonen glyncht wegen angeblich blasphemischen Äußerungen
مردان یونیورسٹی میں طلبہ کی طرف سے شدید تشدد کر کے 23 سالہ طالب علم مشال خان کو جان سے مار دیا گیا تھا۔تصویر: Reuters/F. Aziz

پاکستان میں توہین مذہب ایسا جرم ہے جس کی سزا موت مقرر ہے۔ تاہم بہت سے ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں جن میں لوگ اپنے مختلف مقاصد پورے کرنے کے لیے مخالفین پر توہین مذہب کا غلط الزام لگا دیتے ہیں۔ پاکستانی صوبہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو اسی قانون کے حوالے سے دیے گئے بیانات کے باعث ان کے ایک محافظ نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔