1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

mbassador for Urdu Literature in the West

25 جون 2011

پاکستانی نژاد کینیڈین ادیب مشرف علی فاروقی کی تحریریں عموماً انگریزی میں ہوتی ہیں لیکن انہوں نے داستان امیرحمزہ کا انگریزی ترجمہ کر کے ناقدین کو حیران کر دیا تھا۔ اب ان کا ایک نیا ناول شائع ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/11iy5
تصویر: Knopf Canada

مشرف علی فاروقی کا نیا ناول ‘‘ دی اسٹوری آف اے وِڈو’’ یا ایک بیوہ کی کہانی نے مغربی ادبی دنیا میں اگر تہلکہ نہیں مچایا تو یقینی طور پر ناقدین کی پذیرائی ضرور حاصل کی ہے۔ یہ ناول سن 2009میں طبع ہوا تھا۔ ان کو مغربی دنیا میں اردو کے سفیر کا درجہ دیا جاتا ہے۔ فاروقی کا یہ ناول مختلف انعامات کے لیے بھی منتخب کیا گیا ہے۔

Musharraf Ali Farooqi, Schriftsteller und Übersetzer
مشرف علی فاروقیتصویر: Nina Subin

مشرف علی فاروقی کے ناول ‘‘دی اسٹوری آف اے وِڈو’’ کا رنگ انیسویں صدی میں لکھے جانے والے جین آسٹن کے ناولوں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ فاروقی کا یہ کہنا ہے کہ انہوں نے جین آسٹن کا قطعاً مطالعہ نہیں کیا لیکن یہ حسن اتفاق ہے کہ ان کے ناول کا اسلوب آسٹن کے ناولوں کے طرز پر ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ ان کی کتاب ایک جاپانی ادیب جونی چیرو تانی ذاکی (Junichiro Tanizaki) کے ناول ’’دی ماکی اوکا سسٹرز‘‘ (The Makioka Sisters) سے متاثر ہے۔

مشرف علی فاروقی اردو اور ہندی زبانوں کو ایک ساتھ دیکھتے ہوئے انہیں اس خطے یعنی پاکستان اور بھارت کے مشترکہ کلاسیکی ادب کے ساتھ نتھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

‘‘اردو اور ہندی، تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو ایک جیسی زبانیں ہیں لیکن تقسیم کے بعد انہیں دو ریاستوں پاکستان اور بھارت کی زبانیں قرار دے کر مختلف زبانوں کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ لیکن جب میں اردو زبان کی بات کرتا ہوں تو یہ بھارت اور پاکستان کے مشترکہ لسانی کلچر کی ترجمان ہونے کے علاوہ ادب اور خاص طور پر کلاسیکی ادب کا حوالہ ہوتا ہے۔’’

Buch Buchcover Ghalib Lakhnavi The Adventures of Amir Hamza
انگریزی میں ترجمہ داستان امیرحمزہ کا سرورقتصویر: Modern Library

فاروقی برصغیر پاک و ہند کی لسانی و مذہبی خطوط پر ہونے والی تقسیم کو اردو زبان کے لیے منفی تصور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے شناخت کے عمل کا ستیاناس ہو گیا ہے اور اسے اب تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ فاروقی کے نزدیک بھارت میں مقامی انگریزی مصنفین کے لیے ناشرین اور قارئین موجود ہیں اور پاکستان میں انگریزی پڑھنے والے ضرور ہیں لیکن طباعت کی مارکیٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔

ادبی ناقدوں کا خیال ہے کہ اگر جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کے انداز تحریر کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھیں تو فاروقی کردار نگاری اور کہانی کے عمل کو پیچیدہ اور مشکل نہیں بناتے اور کہانی کا قدرتی بہاؤ موجود رہتا ہے اور اس باعث ان کی کہانیاں مشکل انداز اختیار نہیں کرتیں۔ اس مناسبت سے ان کا تقابل ان کے ہم عصر سلمان رشدی سے بھی بعض نقاد کرتے ہیں۔

ادبی ماہرین کے خیال میں سلمان رشدی کی تحریر میں کہانی کی گتھیاں قاری اور مصنف مل کر سلجھاتے ہیں جب کہ فاروقی کا انداز تحریر اس سے بالکل مختلف ہے۔ فاروقی کی کہانی قدرتی طور پر آگے بڑھتی ہے اور کردار اپنے منطقی انجام کو پہنچتے ہیں۔ مجموعی طور پر مشرف علی فاروقی کا انداز تحریر سادہ اور سلیس ہے۔ یہ دلچسپ امر ہے کہ فاروقی کو بھی رشدی کی تحریر کا انداز پسند نہیں اور وہ اسے بور اور تھکا دینے والا خیال کرتے ہیں۔

رپورٹ: لوئیس گروپ ⁄ ترجمہ :عابد حسین

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں