مشرف پاکستان واپسی کے لیے پرعزم
20 جنوری 2012پاکستانی حکومت کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف کی وطن واپسی پر ان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ مشرف کا نام سن 2007 میں سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں لیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ان پر دیگر مقدمات بھی ہیں۔ مشرف گزشتہ تین برس سے خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس ماہ کی ابتداء میں پرویز مشرف نے کراچی میں بذریعہ ویڈیو ایک جلسے سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ جنوری کی ستائیس اور تیس تاریخ کے درمیان پاکستان واپس آئیں گے۔
جمعرات کے روز لندن کے مشرق میں واقع علاقے الفورڈ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا کہ ان کی واپسی اسی تاریخ کو ہوگی جس کا انہوں نے اعلان کیا تھا۔ ’’میری جماعت کے رہنما میری وطن واپسی سے ممکنہ طور پر پیدا ہونے والی صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں، جس کے بعد وہ اس حوالے سے مجھے مشورہ دیں گے۔ ابھی تک مجھے ان کی جانب سے کوئی حتمی رائے نہیں دی گئی۔‘‘
سابق فوجی صدر کا کہنا تھا کہ ان کا پاکستانی حکمرانوں کو یہی مشورہ ہے کہ وطن واپسی پر ان کو گرفتار نہ کیا جائے۔
پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے بعض اراکین کا کہنا ہے کہ سنگین بحرانوں کا شکار پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت مشرف کی واپسی کو مسائل اور بحرانوں سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کر سکتی ہے، لہٰذا مشرف کی واپسی کے لیے یہ وقت موزوں نہیں ہے۔
پارٹی کے رہنما محمد علی سیف کے مطابق 25 اور 26 جنوری کو دبئی میں پارٹی کا ایک اجلاس منعقد کیا جائے گا جس کی صدارت پرویز مشرف کریں گے۔ اسی اجلاس میں مشرف کی واپسی کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
مبصرین کے مطابق پاکستان واپس آنے پر مشرف کو جان کا خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد پرویز مشرف کی جانب سے امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے پاکستان میں بہت سے شدت پسند حلقے ان کے خلاف ہیں۔ ان کے دور اقتدار کے دوران بھی ان پر کئی قاتلانہ حملے کیے گئے تھے۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک