1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق وسطٰی میں امن کے لیے ’ فرانس کی ایک اور کوشش‘

عدنان اسحاق22 مئی 2016

فرانس نے ایک مرتبہ پھر مشرق وسطٰی میں امن مذاکرات بحال کرنے کی کوشش شروع کی ہے۔ اس مقصد کے لیے وزیر اعظم مانوئل والس اتوار کو اسرائیل پہنچے ہیں۔ وہ اس دوران اپنے اسرائیلی ہم منصب بینجمن نیتن یاہو سے بھی ملاقات کر یں گے۔

https://p.dw.com/p/1Isc9
تصویر: Reuters/G. Fuentes

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مانوئل والس کی بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات پیر کے روز طے ہے۔ اس کے بعد وہ منگل کورام اللہ جا کر فلسطینی وزیر اعظم رامی حمد اللہ سے بھی ملیں گے۔ الایام نامی ایک فلسطینی اخبار سے باتیں کرتے ہوئے والس نے خود کو اسرائیل کا دوست کہا تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ مقبوضہ غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر میں توسیع کے سلسلے کو رکنا چاہیے۔ ’’یہودی بستیوں میں توسیع کا روکا جانا لازمی ہے۔‘‘

فلسطینی صدر محمود عباس نے فرانس کی جانب سے تین جون کو مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں کرنے کی پیش رفت کو سراہا ہے۔ اس اجلاس میں فلسطین اور اسرائیل کے وزرائے خارجہ موجود نہیں ہوں گے۔ بعد ازاں مشرق وسطٰی میں امن کے موضوع پر اسی طرح کا ایک اور اجلاس رواں برس موسم خزاں میں بھی منعقد کرایا جائے گا، جس میں یہ دونوں ممالک بھی شریک ہوں گے۔

USA Mittlerer Osten Friedensgespräche Benjamin Netanyahu und Mahmoud Abbas
تصویر: CHRIS KLEPONIS/AFP/Getty Images

دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے فرانس کی اس کوشش کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے مطابق اس مسئلے پر فریقین کو براہ راست بات کرنی چاہیے۔ مشرق وسطٰی امن مذاکرات اپریل 2014ء میں اس وقت تعطّل کا شکار ہو گئے تھے، جب اسی نوعیت کی ایک امریکی کوشش ناکام ہوئی تھی۔

اس موقع پر والس نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ امن بات چیت کا سلسلہ بحال کرنے میں ناکامی کی صورت میں فرانسیسی حکومت فلسطین کو فوری طور پر یک خود مختار اور آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرے گی۔ اس سے قبل سابق فرانسیسی وزیر خارجہ لاراں فابیوس نے کہا تھا کہ حکومت مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں میں پائے جانے والے جمود کے خاتمے کی خاطر ایک بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کے لیے کوشاں ہے، لیکن اگر یہ کانفرنس ناکام رہی تو فرانس فلسطین کی آزاد اور خود مختار ریاست کے وجود کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لے گا۔ تاہم اس کے بعد فابیوس کے جانشین نے اس بیان سے دوری اختیار کر لی تھی۔