’مشرق وسطیٰ ميں ہونے والے جرائم کے چشم ديد گواہ سامنے آئيں‘
27 مئی 2016شام اور عراق سے تعلق رکھنے والے ايسے تارکين وطن، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے مظالم اور نا انصافياں ديکھی ہوں، يورپی عدالتوں ميں مقدمے تيار کرنے والے استغاثہ کے وکلاء کے ليے نہايت اہميت کے حامل ہيں۔ انہی مقدمات کی بناء پر شام ميں مبينہ جنگی جرائم کی تحقيقات کے ليے بين الاقوامی کورٹ کے قيام کی راہ ہموار ہو سکے گی۔
متاثرہ افراد يا جو مبينہ مظالم کے چشم ديد گواہ ہوں، کی تلاش کے ليے جرمنی اور ہالينڈ کی اميگريشن سروسز سے منسلک حکام مہاجرين ميں اشتہاری کاغذات تقسيم کريں گے۔ اشتہارات ميں ان افراد کو گواہی دينی کی دعوت دی جائے گی۔ ناروے ميں پوليس اہلکار نئے آنے والے پناہ گزينوں کی موبائل فون ميں موجود مواد کا جائزہ ليتے ہيں تاکہ انہيں اس حوالے سے شواہد مل سکيں۔
يورپی يونين کے نسل کشی کے خلاف نيٹ ورک سے وابستہ ماتيز پيزڈرک کا کہنا ہے کہ آئندہ پانچ برسوں ميں ايسے بہت سے مقدمے چلائے جائيں گے۔ اٹھائيس رکنی يورپی بلاک کا يہ ادارہ معلومات کے تبادلے کے ليے سال ميں دو مرتبہ پوليس اور استغاثہ کی ہالينڈ کے شہر دی ہيگ ميں ملاقات کراتا ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ قصور وار يا شام ميں جنگی جرائم کے مرتکب پائے جانے والے چند ايسے يورپی شہری بھی ہو سکتے ہيں، جو دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ کے رکن بنے اور ايسا بھی ممکن ہے کہ ديگر قصور وار مہاجرين کی صفوں ميں شامل ہو کر يورپ پہنچ چکے ہوں۔ ماتيز پيزڈرکا کہنا ہے، ’’ايک ہی مقام پر بہت سے متاثرين تو مل سکتے ہيں، ليکن جنگی جرائم کے مرتکب پائے جانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی اس وقت تک ممکن نہيں جب تک وہ آپ کی قانونی حدود ميں نہ ہوں۔‘‘
اکثريتی يورپی ممالک کے قوانين بين الاقوامی سطح کے نسل کشی جيسے جرائم کے خلاف کارروائی کی اجازت ديتے ہيں، خواہ وہ دنيا ميں کہيں بھی ہوئے ہوں۔ مختلف يورپی ملکوں ميں تقريباً پندرہ ايسے يونٹ فعال ہيں، جو ايسے واقعات کی تفتيش کرتے ہيں۔
پچھلی قريب ايک دہائی کے دوران يورپی حکام نے جنگی جرائم کے 1,607 کيسز کی تحقيقات اپنی سرزمين پر کی ہيں جبکہ 1,339 مقدمات اب بھی جاری ہيں۔