مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال
27 مارچ 2011مشرقِ وسطیٰ میں جاری عوامی مظاہروں، بغاوتوں اور شورش کے باعث مختلف ممالک اور ریاستوں میں حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ شامی حکومت نے بالآخر عوامی مظاہروں سے مجبور ہو کر انیس سو تریسٹھ سے ملک میں نافذ ایمرجنسی کے قوانین واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ اس خبر کی تصدیق جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے کی ہے تاہم ابھی اس کی مزید ذرائع سے تصدیق ہونا باقی ہے۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ صدر بشار الاسد جلد ہی عوام سے خطاب کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہ غالباً اپنے خطاب میں ایمرجنسی اٹھانے کا باضابطہ اعلان کریں گے۔
دوسری جانب امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن کا کہنا ہے کہ امریکہ شام کے تنازعے میں اس طرح شامل نہیں ہو سکتا جس طرح کہ وہ لیبیا کے تنازعے میں شامل ہوا ہے۔
قبل ازیں شامی حزبِ اختلاف نے ملک گیر ہڑتال کی کال دی تھی۔ یہ کال شامی حکومت کی جانب سے حکومت مخالف مظاہرین پر تشدّد کے خلاف احتجاج کے طور پر دی گئی تھی۔ حکومت کی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مظاہرین ملک میں معاشی اور سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں دو مظاہرین کے قتل کے بعد شام میں ہفتے کے روز مظاہروں میں مزید شدت دیکھی گئی ہے۔ مظاہرین نے بشار الاسد کی جماعت کے ایک دفتر کو بھی نذر آتش کر دیا۔ حکام کے مطابق 15 مارچ سے جاری احتجاجی تحریک میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں اب تک 27 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں سے 20 مظاہرین جبکہ سات سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 126 ہے، جن میں سے تقریبا 100 افراد گزشتہ بدھ سے اب تک جنوبی شہر درعا میں ہلاک کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ بیروت میں شامی سفارت خانے کے باہر ڈیڑھ سو کے قریب افراد نے صدر بشار الاسد کی حمایت میں ایک مظاہرہ کیا ہے۔ مظاہرین ’اسد کے بغیر شام قبول نہیں، کے نعرے لگا رہے تھے۔ اطلاعات ہیں کہ کار پر سوار ایک مسلح شخص نے ان مظاہرین پر فائرنگ کی ہے جس سے کم از کم ایک شخص زخمی ہوا ہے۔
ادھر یمن میں اسلامی عسکریت پسندوں اور مرکزی حکومت کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ یہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب عسکریت پسندوں نے جنوبی یمن کے ایک قصبے جار پر قبضہ کر لیا اور وہاں سے افواج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
اس سے قبل یمن کے حکومتی اہلکاروں کے مطابق القاعدہ کے ایک فوجی قافلے پر مسلح حملے میں کم از کم چھ فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ صدر علی عبداللہ صالح کو عوامی مظاہروں کا سامنا ہے۔ وہ یمن میں القاعدہ کے خلاف امریکہ کے اتحادی بھی ہیں۔
اردن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں۔ اتوار کے روز خیری سعد نامی ایک پچپن سالہ شخص کی تدفین کی گئی جس کا تعلق جمہوریت پسند حزبِ اختلاف سے بتایا جا رہا ہے۔ خیری سعد کی تدفین میں دو سو کے قریب افراد نے شرکت کی۔ اردن میں مظاہرین وزیرِ اعظم کے استعفے، سیاسی اصلاحات اور پارلیمان کو برخاست کرکے انتخابات کے ذریعے نئی پارلیمان قائم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عصمت جبیں