مشرقی یروشلم میں نئی یہودی آبادکاری ’اشتعال انگیز‘، امریکا
28 جولائی 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ مشرقی یروشلم میں یہودی آباد کاری کے باعث مشرق وسطیٰ امن عمل کے متاثر ہونے کا شدید خدشہ ہے، اس لیے اسرائیل کو وہاں یہودیوں کے لیے نئے مکانات کی تعمیر سے باز رہنا چاہیے۔
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان جان کِربی نے اس پیش رفت پر واشنگٹن کے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’ہم ایسی خبروں پر تشویش رکھتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت نے مشرقی یروشلم میں نئے مکانات کی تعمیر کے حوالے سے ٹینڈر جاری کر دیے ہیں۔‘‘
کِربی نے کہا کہ پیر کے دن بھی گیلو کی یہودی بستی میں سات سو ستر رہائشی یونٹوں کی تعمیر کا اعلان کیا گیا تھا اور اسرائیلی حکومت کے یہ اقدامات قیام عمل کی خاطر تنازعے کے دو ریاستی حل کے منافی ہیں۔
جان کربی نے مزید کہا کہ اسرائیل کی طرف سے اس طرح یہودی آباد کاری ’اشتعال انگیز اور غیر تعمیری‘ ہے۔ امریکا کے علاوہ فلسطینی رہنماؤں اور اقوام متحدہ نے بھی گیلو میں نئے مکانات کی تعمیر کے اس منصوبے پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیلی حکومت کے یہودی آبادکاری کے منصوبوں پر نظر رکھنے والے ایک غیر سرکاری ادارے ’عیر عمیم‘ کے مطابق اسرائیلی حکومت کی طرف سے نئے مکانات کی تعمیر کا یہ منصوبہ دراصل تین برس قبل منظور کیے گئے اس بڑے پلان کا حصہ ہے، جس کے تحت بارہ سو نئے رہائشی یونٹ تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
اسرائیل کی طرف سے مشرقی یروشلم اور مغربی اردن کے علاقے میں یہودی آبادکاری کو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی تصور کیا جاتا ہے۔
ایسے منصوبہ جات کو مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے بھی نقصان دہ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ فلسطینی ان مقبوضہ علاقوں کو مستقبل کی اپنی آزاد ریاست کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
امریکا، یورپی یونین، روس اور اقوام متحدہ کے چار فریقی سفارت کار گروپ نے بھی اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ اسرائیل کی طرف سے متنازعہ علاقوں میں نئے مکانات کی تعمیر سے دو ریاستی حل کے امکان کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
اسرائیل نے سن 1967 میں مغربی اردن اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا۔ فلسطینی اتھارٹی مشرقی یروشلم کو مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتی ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین قیام امن کے سلسلے میں یروشلم کا معاملہ انتہائی حساس تصور کیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اس معاملے کے باعث امن مذاکرات کا سلسلہ تعطل کا شکار ہے۔