مشہورحیاتیات دان چارلس ڈارون کی200ویں سالگرہ
15 فروری 2009چارلس ڈارون نے 1859ءمیں ”اوریجن آف سپیشیز“ کے نام سے کتاب لکھی تھی جس میں یہ نظریہ پیش کیا گیا تھا کہ لاکھوں سال کے قدرتی عمل اور مستقل ارتقائی مرحلے سے جاندار موجودہ حالت کو پہنچے ہیں۔
ڈارون 1831 میں 22 سال کی عمر میں بحری جہاز ’’بیگل‘‘ پر دنیا کے گرد سفر پر روانہ ہوئے۔ اس لمبے سفر کے دوران ڈارون بہت قدیم قبیلوں سے بھی ملے اور اس سفر میں انہوں نے بہت سے جانوروں کے فوسلز یا ڈھانچے بھی دریافت کئے۔ اس سفر میں ڈارون نےبہت بڑی تعداد میں پودوں اور جانوروں کا مشاہدہ کیا اوران مشاہدات کو بڑی تفصیل سے قلم بند کیا۔
ان مشاہدات کی بنیاد پر ڈارون کی لکھی ہوئی کتاب Origin Of Species یا حیاتی انواع کا ماخذ ہے۔
ڈارون کے نظرئیے کے مطابق ہر زندہ جسم میں ایک مستقل ارتقائی رجحان پایا جاتا ہے جو اسے نہ صرف ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں معاونت کرتا ہے بلکہ مسلسل ارتقاء کا یہ عمل اس میں بہت سی تبدیلیوں کا بھی باعث بنتا ہے مگران تبدیلیوں کے واضح ہونے میں لاکھوں برسوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔ ڈارون کا ماننا تھا کہ انسانی کی موجودہ شکل کے درپردہ لاکھوں برسوں کا ایک مسلسل ارتقائی عمل ہے جو اسے اس شکل تک لے کر آیا۔
ڈارون کے اس نظرئیے کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ان سے اختلاف بھی کیا۔ یہ ناقدین جن میں بڑی تعداد مختلف مذاہب سے متعلق رکھنے والے دانشوروں کی تھی ڈارون کے نظرئیے پر سب سے بڑا اختلافی نقطہ یہ اٹھاتے دکھائی دئیے کی ڈارون کے اس نظرئیے میں خدا کے وجود کی نفی کی گئی ہے حالانکہ ڈارون کی کتاب Origin Of Species کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے ’’تخلیق کار نے زندگی کو ایک یا زائد بنیادی انواع سے تخلیق کیا۔‘‘
برطانوی حکومت نے عالمی شہرت یافتہ سائنسدان چارلس رابرٹ ڈارون کے جائے پیدائش اور کام کرنے کی جگہ کو عالمی ورثہ قرار دیدیا ہے۔
چارلس ڈارون نے1882ءمیں وفات پائی۔ ڈارون کی لینڈ سکیپ لیبارٹری بروملے کے علاقے بروگ میں واقع ہے جو ڈارون کے مکان، تجرباتی باغ اور ایک طویل صحن پر مشتمل ہے۔ انہوں نے اس لیبارٹری میں تقریباً 40 سال تک کام کیا۔