مصر: ’اخوان المسلمون کا حامی‘ تختہ دار پر لٹکا دیا گیا
7 مارچ 2015مصری حکام نے سن 2013 کے مظاہروں کے دوران پرتشدد واقعے میں ملوث ہونے کے جرم کے تحت اخوان المسلون کے رکن محمود حسن رمضان کو پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کی تصدیق کر دی ہے۔ مصر کے شہر اسکندریہ میں محمود حسن رمضان کو ہفتے کی صبح مقامی وقت کے مطابق سات بجے تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ اِس پھانسی کی ابتدائی اطلاع مصری وزارت داخلہ نے اپنے فیس بُک پیج پر جاری کی تھی۔ وزارت داخلہ کے ترجمان ہانی عبدالطیف نے اِس پھانسی کے حوالے سے بتایا کہ سن 2013 کے پرتشدد مظاہروں میں ملوث افراد کے حوالے سے یہ پہلی پھانسی کی سزا ہے، جس پر عمل کیا گیا ہے۔
عمارت سے دو افراد کو نیچے پھینکنے کا واقعہ سیدی جابرکے علاقے میں پانچ جولائی سن 2013 کو رونما ہوا تھا۔ اسی مقدمے میں تقریباً ایک درجن افراد کے خلاف مقدمہ شروع کیا گیا تھا۔ سیدی جابر کا علاقہ مصر کے دوسرے بڑے شہر اسکندریہ کا ایک اہم حصہ ہے۔ بعض افراد کے مطابق عمارت کی چھت سے نیچے پھینکے گئے بچے تھے۔ مصری وزارت داخلہ کے بیان میں بھی مقتولین کو بچے ہی قرار دیا گیا ہے۔ مصری سکیورٹی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ محمود حسن رمضان ایک بنیاد پرست مسلمان تھا اور وہ کبھی بھی اخوان المسلمون کا باقاعدہ رکن بھی نہیں رہا۔
محمود حسن رمضان کو پھانسی کی سزا مصر کے شمالی شہر اسکندریہ کی انتہائی سکیورٹی والی جیل میں دی گئی۔ اُس پر جو الزام لگایا گیا تھا، اُس کی ایک ویڈیو بھی عدالت میں پیش کی گئی تھی۔ اِسی ویڈیو کو استغاثہ نے عدالت میں مقدمے کے دوران بطور ایک بڑی شہادت کے پیش کیا تھا۔ اس ویڈیو میں عمارت کی چھت پر کھڑا محمود حسن دو افراد کو نیچے پھینک رہا ہے۔ اُس نے القاعدہ کا جھنڈا بھی کمر سے باندھ رکھات تھا۔ یہ ویڈیو اُن مظاوہروں کے دوران کسی نے ریکارڈ کر کے آن لائن کر دی تھی۔
اعلیٰ مصری عدالت نے محمود حسن کی موت کی سزا کی توثیق گزشتہ ماہ کی تھی۔ محمود حسن کی ویڈیو اگست سن 2013 میں اپ لوڈ کی گئی تھی اور تب سے ہی مصری عوامی حلقے پرتشدد مظاہروں میں دانستہ طور پر عام لوگ کو ہلاک کرنے والوں کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ رکھتے تھے۔
مصری قانون کے مطابق اعلیٰ ترین عدالت ماتحت عدالت کی جانب سے دی جانے والی سزا کی توثیق کرتی ہے۔ اِس توثیق کے بعد ہی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ مرسی حکومت کے خاتمے کے بعد کئی ہزار افراد لوگ حراست میں لیے گئے تھے اور حالیہ مہینوں میں کئی افراد کو تیز رفتار عدالتی عمل کے بعد موت کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔ ان افراد کی موت کی سزاؤں پر اعلیٰ عدالت کی نظرثانی کا عمل جاری ہے۔ موت کی سزا پانے والوں میں اخوان المسلمون کے لیڈر محمد بدیع بھی شامل ہیں۔ موت کی اِن سزاؤں پر اقوام متحدہ کی تشویش سامنے آ چکی ہے۔