مصر: اخوان المسلمون کے حامی کٹہرے میں
22 مارچ 2014یہ مقدمہ بھی اُسی کریک ڈاؤن کا ایک حصہ ہے، جس کا مقصد معزول صدر کے اُن اسلام پسند حامیوں کو ہدف بنانا ہے، جو ابھی بھی مرسی کی بطور صدر بحالی کے مطالبے پر سختی سے جمے ہوئےہیں۔
محمد مرسی مصر کے پہلے ایسے غیر فوجی صدر تھے، جنہیں عوام نے براہِ راست منتخب کیا تھا تاہم مصری فوج نے گزشتہ سال جولائی میں اُنہیں اُن کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ اُن کی معزولی سے ملک بھر میں ہنگامے شروع ہو گئے تھے۔
اجتماعی مقدمے کی کارروائی دارالحکومت قاہرہ سے جنوب کی جانب منیا کے مقام پر عمل میں آ رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمان میں کالعدم اخوان المسلمون کے روحانی قائد محمد بدیع بھی شامل ہیں۔
اخوان المسلمون سے قریبی نظریاتی وابستگی رکھنے والی ویب سائٹس نے بتایا ہے کہ مقدمے کی کارروائی منیا میں چھ مختلف عدالتوں میں عمل میں لائی جا رہی ہے اور یہ کہ یہ کارروائی چھ روز تک جاری رہے گی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کچھ افراد کے خلاف مقدمہ اُن کی غیر حاضری میں چلایا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آج ہفتے کے روز پانچ سو ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت ہو گی جبکہ دیگر سات سو افراد کے خلاف مقدمہ آئندہ منگل کو سنا جائے گا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ کتنے ملزمان عدالت میں موجود ہوں گے کیونکہ ان میں سے صرف تقریباً دو سو ملزمان زیرِ حراست ہیں جبکہ باقی یا تو ضمانت پر رہا ہیں یا پھر مفرور ہیں۔
گزشتہ سال اگست میں سکیورٹی فورسز نے طاقت استعمال کرتے ہوئے قاہرہ میں مرسی کے حامیوں کی جانب سے قائم کیے گئے دو احتجاجی کیمپ ختم کر دیے تھے، جس کے بعد مبینہ طور پر جنوبی مصر میں مختلف افراد اور سرکاری املاک پر حملے عمل میں آئے۔ ذرائع کے مطابق ملزمان پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ ایسے پُر تشدد اقدامات کے مرتکب ہوئے ہیں، جو منیا میں دو پولیس اہلکاروں کی موت کا سبب بنے۔
گزشتہ سال چَودہ اگست کو قاہرہ میں مرسی کے حامیوں کے کیمپ ختم کیے جانے کی کارروائی اور اس کے بعد پھوٹ پڑنے والے ہنگاموں کے دوران سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حقوقِ انسانی کی علمبردار بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اُس دوران مصر بھر میں جھڑپوں اور پُر تشدد واقعات میں کم از کم چَودہ سو افراد مارے گئے جبکہ اب تک ہزاروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
خود محمد مرسی کو، جنہیں گزشتہ سال تین جولائی کو صدر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، تین مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔ مرسی کو اس الزام کا بھی سامنا ہے کہ اُنہوں نے اپنے دورِ صدارت کے دوران لوگوں کو ایک صدارتی محل کے باہر جمع مظاہرین کو ہلاک کرنے کے لیے اُکسایا تھا۔
مرسی نے صرف ایک سال تک مصر کے منتخب سویلین صدر کی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ بعد ازاں اُن کی حکومت پر اختیارات ہتھیانے اور پہلے سے کمزور معیشت کو مزید تباہی کی طرف لے جانے کے الزامات لگنے لگے تھے اور اُن کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔