مصر انتخابات، اسلام پسند واضح برتری کے ساتھ
5 دسمبر 2011پہلے مرحلے کے انتخابات میں اعتدال پسندوں کے مقابلے میں اسلام پسند جماعتوں کو واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ مصر میں سخت مذہبی رجحانات کی حامل تنظیم اخوان المسلمین کی حمایت یافتہ اسلامی جماعت فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی FJP کو انتخابات کے پچھلے دور میں 36 اعشاریہ چھ فیصد جبکہ ایک سخت گیر اسلامی مؤقف کی حامل جماعت النور پارٹی کو 24 اعشاریہ چار فیصد ووٹ ملے تھے۔ مصری پارلیمان کی چار سو اٹھانوے نشستوں کے لیے ہونے والے ان انتخابات میں اب یہ جماعتیں اپنی برتری میں اضافے کے لیے پرعزم دکھائی دیتی ہیں۔
کئی ادوار پر مبنی ان انتخابات میں پچھلے ہفتے مصری دارالحکومت قاہرہ کے چند علاقوں کے علاوہ بندرگاہی شہر اسکندریہ میں بھی عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔ اس سلسلے میں مجموعی طور پر 56 نشستوں پر اسلامی جماعتوں کو کامیابی ملی تھی جن میں سے چار پر رن آف انتخابات بھی ہو رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق انتخابات میں سخت گیر مؤقف کی حامل جماعتوں کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ عوام اور فوج کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے سے جاری کشیدگی کا بڑا عمل دخل ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ مصر میں اس وقت اصل مقابلہ انہی دونوں اسلامی جماعتوں کے درمیان ہو گا کیونکہ عوام کو توقع ہے کہ یہ جماعتیں اقتدار میں آ کر فوج کی جانب سے اپنے اختیار میں اضافے کے لیے کیے گئے اقدامات کا خاتمہ کر سکیں گی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں کم از کم اپنی انتخابی مہم میں سخت گیر مؤقف کے ساتھ سامنے نہیں آئیں کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں عوام کسی دوسرے آپشن پر غور کر سکتے تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اگرچہ مغربی ممالک انتخابی نتائج کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں تاہم عرب دنیا میں انقلابات کے بعد تیونس اور مراکش میں ہونے والے انتخابات میں اسلام پسندوں ہی کو اکثریت حاصل ہوئی اور مصر میں ان کی کامیابی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
مصر کے ہمسایہ ملک اسرائیل نے بھی انتخابی نتائج پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ مصر ایک انتہا پسند ریاست کی صورت میں سامنے نہیں آئے گا، کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں خطے کی سلامتی شدید خطرات سے دوچار ہو جائے گی۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: افسر اعوان