1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر ميں اتخابات کے بعد کی صورتحال

25 جنوری 2012

مصر کے پارلیمانی انتخابات ميں کامياب ہونے والی اسلامی جماعتوں نے سماجی انصاف لانے اور نا انصافی کے خاتمے کے وعدے کيے ہيں۔ اب يہ ديکھنا باقی ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کريں گی يا نہيں۔

https://p.dw.com/p/13pg0
مصر ميں انقلاب کا ايک سال پورا ہونے پر تحرير چوک ميں مظاہرہ
مصر ميں انقلاب کا ايک سال پورا ہونے پر تحرير چوک ميں مظاہرہتصویر: Reuters

مصر ميں ہنگامی حالت کا نفاذ ختم کر ديا گيا ہے۔ ليکن ہنگامہ اور فساد کرنے والوں کے خلاف اب بھی ہنگامی حالت کے قوانين کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ برلن کی فری يونيورسٹی کے سياست اور اقتصادی علوم کے ليکچرر حمادی العونی کے خيال ميں يہ حقيقت ميں ہنگامی حالت کا خاتمہ نہيں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ يہ مظاہرين کے مطالبے پر صرف ايک رسمی کارروائی ہے اور درحقيقت فوج ہنگامہ پرور کی اصطلاح کسی بھی مصری کے ليے استعمال کر سکتی ہے۔

العونی نے کہا کہ اُن ہی کی طرح بہت سے دوسروں نے بھی صورتحال کو ايک اور ہی انداز سے ديکھا تھا۔ پچھلے سال 25 جنوری کو قاہرہ ميں تحرير چوک پر پہلا بڑا مظاہرہ ہوا تھا۔ وہاں جمع ہونے والوں نے جمہوريت، سماجی انصاف اور اظہار خيال کی آزادی کا مطالبہ کيا تھا۔ اس کے بعد مسلسل جلسے اور مظاہرے ہوتے رہے جنہوں نے صدر حسنی مبارک کو صرف تين ہفتے بعد ہی مستعفی ہونے پر مجبور کر ديا۔

مصری پارليمنٹ کا اجلاس
مصری پارليمنٹ کا اجلاستصویر: Reuters

اس دوران مصر ميں پہلے آزادانہ انتخابات ہو چکے ہيں۔ ان ميں اسلامی نظام کے نعرے لگانے والے گروپوں نے 70 فيصد سے زائد ووٹ حاصل کيے ہيں۔ اخوان المسلمون کی پارٹی ’آزادی اور انصاف‘ نے 47 فيصد ووٹ حاصل کيے ہيں اور حکومت کی تشکيل ميں اُس کا کردار بہت اہم ہو گا۔ وہ خود کو اعتدال پسند قرار ديتی ہے۔

مصر آئندہ کتنا اسلامی ہو گا، يہ اب اس بات پر منحصر ہے کہ يہ پارٹی کس کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی۔ انتخابات ميں دوسری بڑی طاقت کے طور پر ابھرنے والی اور انتہا پسند سمجھی جانے والی پارٹی حزب النور ہے جسے 24 فيصد ووٹ ملے ہيں۔ تيسرے نمبر پر لبرل ’وفد‘ پارٹی ہے جسے آٹھ فيصد ووٹ ملے ہيں۔

جنرل طنطاوی
جنرل طنطاویتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن پارليمنٹ ميں اپوزيشن پارٹی ايس پی ڈی کے پارليمانی دھڑے کے خارجہ امور کے ترجمان رولف ميوٹسينش نے کہا ہے کہ مصر کے ان اسلامی گروپوں کے درميان ’وسيع اختلافات‘ بھی ہيں۔ يہ فراموش نہيں کيا جانا چاہيے کہ اخوان المسلمون ميں بہت سے نوجوان اور تنقيدی فکر رکھنے والے بھی شامل ہيں۔ ميوٹسينش نے يہ بھی کہا: ’’ميرے خيال ميں بہت سے مصری يہ تسليم کرتے ہيں کہ اسلام اُن کے معاشرے ميں ايک اہم ثقافتی اور تاريخی پل ہے۔‘‘

قاہرہ ميں عرب ليگ کا اجلاس
قاہرہ ميں عرب ليگ کا اجلاستصویر: Reuters

سياسی علوم کے ليکچرر العونی کو اس ميں شبہ ہے کہ اعتدال پسند اسلام کا دعوٰی کرنے والے گروپ واقعی سماجی انصاف کے وعدے پورے کريں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہيں ان کے عمل کی بنیاد پر پرکھا جائے گا۔ خاص طور پر نا انصافی کے شکار بہت سے نوجوان مستقبل کے بارے ميں زيادہ پر اميد نہيں ہيں۔

ميوٹسينش نے کہا کہ بغورجائزہ لينے والے مغربی ممالک کو يہ سمجھنا ہو گا کہ وہ حالات پر بہت کم ہی اثر انداز ہو سکتے ہيں۔

پچھلے سال 11 فروری کو حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے مصر پرجنرل طنطاوی کی سرکردگی ميں اعلٰی فوجی کونسل کی حکومت ہے جو نئی حکومت بننے، نيا آئين وضع کيے جانے اور نيا صدر منتخب ہونے تک قائم رہے گی۔ طنطاوی نے کہا کہ مصر کو آگ ميں جھونکنے کی اجازت نہيں دی جاسکتی اور ملک کی ريڑھ کی ہڈی فوج کو توڑنے کی کوشش کامياب نہيں ہونے دی جائے گی۔

رپورٹ: زابينے ہارٹرٹ مجديحی/ شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں