مصر ميں اتخابات کے بعد کی صورتحال
25 جنوری 2012مصر ميں ہنگامی حالت کا نفاذ ختم کر ديا گيا ہے۔ ليکن ہنگامہ اور فساد کرنے والوں کے خلاف اب بھی ہنگامی حالت کے قوانين کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ برلن کی فری يونيورسٹی کے سياست اور اقتصادی علوم کے ليکچرر حمادی العونی کے خيال ميں يہ حقيقت ميں ہنگامی حالت کا خاتمہ نہيں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ يہ مظاہرين کے مطالبے پر صرف ايک رسمی کارروائی ہے اور درحقيقت فوج ہنگامہ پرور کی اصطلاح کسی بھی مصری کے ليے استعمال کر سکتی ہے۔
العونی نے کہا کہ اُن ہی کی طرح بہت سے دوسروں نے بھی صورتحال کو ايک اور ہی انداز سے ديکھا تھا۔ پچھلے سال 25 جنوری کو قاہرہ ميں تحرير چوک پر پہلا بڑا مظاہرہ ہوا تھا۔ وہاں جمع ہونے والوں نے جمہوريت، سماجی انصاف اور اظہار خيال کی آزادی کا مطالبہ کيا تھا۔ اس کے بعد مسلسل جلسے اور مظاہرے ہوتے رہے جنہوں نے صدر حسنی مبارک کو صرف تين ہفتے بعد ہی مستعفی ہونے پر مجبور کر ديا۔
اس دوران مصر ميں پہلے آزادانہ انتخابات ہو چکے ہيں۔ ان ميں اسلامی نظام کے نعرے لگانے والے گروپوں نے 70 فيصد سے زائد ووٹ حاصل کيے ہيں۔ اخوان المسلمون کی پارٹی ’آزادی اور انصاف‘ نے 47 فيصد ووٹ حاصل کيے ہيں اور حکومت کی تشکيل ميں اُس کا کردار بہت اہم ہو گا۔ وہ خود کو اعتدال پسند قرار ديتی ہے۔
مصر آئندہ کتنا اسلامی ہو گا، يہ اب اس بات پر منحصر ہے کہ يہ پارٹی کس کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی۔ انتخابات ميں دوسری بڑی طاقت کے طور پر ابھرنے والی اور انتہا پسند سمجھی جانے والی پارٹی حزب النور ہے جسے 24 فيصد ووٹ ملے ہيں۔ تيسرے نمبر پر لبرل ’وفد‘ پارٹی ہے جسے آٹھ فيصد ووٹ ملے ہيں۔
جرمن پارليمنٹ ميں اپوزيشن پارٹی ايس پی ڈی کے پارليمانی دھڑے کے خارجہ امور کے ترجمان رولف ميوٹسينش نے کہا ہے کہ مصر کے ان اسلامی گروپوں کے درميان ’وسيع اختلافات‘ بھی ہيں۔ يہ فراموش نہيں کيا جانا چاہيے کہ اخوان المسلمون ميں بہت سے نوجوان اور تنقيدی فکر رکھنے والے بھی شامل ہيں۔ ميوٹسينش نے يہ بھی کہا: ’’ميرے خيال ميں بہت سے مصری يہ تسليم کرتے ہيں کہ اسلام اُن کے معاشرے ميں ايک اہم ثقافتی اور تاريخی پل ہے۔‘‘
سياسی علوم کے ليکچرر العونی کو اس ميں شبہ ہے کہ اعتدال پسند اسلام کا دعوٰی کرنے والے گروپ واقعی سماجی انصاف کے وعدے پورے کريں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہيں ان کے عمل کی بنیاد پر پرکھا جائے گا۔ خاص طور پر نا انصافی کے شکار بہت سے نوجوان مستقبل کے بارے ميں زيادہ پر اميد نہيں ہيں۔
ميوٹسينش نے کہا کہ بغورجائزہ لينے والے مغربی ممالک کو يہ سمجھنا ہو گا کہ وہ حالات پر بہت کم ہی اثر انداز ہو سکتے ہيں۔
پچھلے سال 11 فروری کو حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے مصر پرجنرل طنطاوی کی سرکردگی ميں اعلٰی فوجی کونسل کی حکومت ہے جو نئی حکومت بننے، نيا آئين وضع کيے جانے اور نيا صدر منتخب ہونے تک قائم رہے گی۔ طنطاوی نے کہا کہ مصر کو آگ ميں جھونکنے کی اجازت نہيں دی جاسکتی اور ملک کی ريڑھ کی ہڈی فوج کو توڑنے کی کوشش کامياب نہيں ہونے دی جائے گی۔
رپورٹ: زابينے ہارٹرٹ مجديحی/ شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک