مصر میں تاریخی انقلاب پر ڈوئچے ویلے کا تبصرہ
12 فروری 2011مصر میں صدر حسنی مبارک کے استعفے کے بعد کی صورت حال پر ڈوئچے ویلے کے بیرنڈ ریگرٹ کا لکھا تبصرہ:
قاہرہ میں اور پورے مصر میں مظاہرین یہ نعرے لگا رہے ہیں کہ مصر بالآخر آزاد ہو گیا ہے۔ عشروں سے حکمران حسنی مبارک ایک ایسی رو کے ساتھ بہہ گئے جسے جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا تاریخی لمحہ ہے، جس میں ہر کسی کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ تاریخ کیسے وجود میں آتی ہے۔
ہر کوئی مصر میں آج کی صورت حال کا موازنہ یورپ میں 1989ء میں نظر آنے والے ان حالات کے ساتھ کر رہا ہے، جب ہر طرف خوشی کا رقص کیا جا رہا تھا۔ حسنی مبارک کو آخر کار یہ احساس ہو گیا تھا کہ ان کے پاس مصر میں حقیقی عوامی حکمرانی کے عمل میں اپنے کسی کردار کے لیے کوئی موقع باقی بچا ہی نہیں تھا۔ انہیں جمعرات دس فروری کو ہی اپنے عہدے سے رخصت ہو جانا چاہیے تھا تاہم انہیں یہی فیصلہ زیادہ سے زیادہ چوبیس گھنٹے کی تاخیر سے لیکن کرنا ہی پڑا۔ اس تبدیلی پر مصر میں حیران کن حد تک خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مصر میں آئندہ کیا ہو گا؟ کیا وہ فوج، جس نے مبارک کو سربراہ مملکت کے عہدے پر بٹھایا تھا، حقیقی جمہوریت کی طرف سفر کی کامیابی کو یقینی بنا سکتی ہے؟ ہر کسی کی خواہش ہے اور ہر کوئی امید بھی کر رہا ہے کہ یہ بہت بڑا تجربہ کامیاب رہنا چاہیے۔
اب یورپ اور امریکہ کو اپنے کہے پر قائم رہنا ہو گا اور مصر کو ہر وہ قابل تصور سیاسی اور مالی مدد فراہم کرنا ہو گی، جو اس عرب ریاست میں جمہوریت کی ترویج کے لیے درکار ہے۔ یورپی یونین کی وزیر خارجہ کیتھرین ایشٹن نے گزشتہ ویک اینڈ پر ہی کہہ دیا تھا کہ یورپ مصر میں جمہوری عمل کی تائید و حمایت کے لیے ہر طرح کے تعاون پر تیار ہے۔
اب اگر نئی مصری قیادت بھی ایسا چاہے تو کیتھرین ایشٹن کو اگلی ہی پرواز سے مصر جانا چاہیے اور اپنے الفاظ کو عملی رنگ دینے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس عمل میں زیادہ اہم یہ بات بھی ہو گی کہ کسی کو یہ تاثر نہ ملے کہ جیسے یورپ یا امریکہ موجودہ حالات کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ فتح مصری عوام کی فتح ہے جو ان کی ہی رہنی چاہیے۔
تاہم یورپ اور امریکہ کو پس پردہ رہ کر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا ہو گا، اگر ان کو کوئی اثر و رسوخ حاصل ہے تو۔ اس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ شمالی افریقہ کا یہ ملک مستحکم رہے اور وہاں کی داخلی صورت حال اسرائیل کے ساتھ امن پر کوئی منفی اثرات مرتب نہ کرے۔ یہی وہ ضمانت ہے جو اب مستعفی ہو چکے صدر مبارک نے ہمیشہ مہیا کی تھی۔
مصر کو یہ بتانے کی بجائے کہ اس کو کیا کرنا چاہیے، یورپ کو اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا ہو گی کہ وہاں اعتدال پسند اور جمہوری قوتوں کو مضبوط بنایا جائے اور انہیں قائم رکھا جائے۔ اس انقلاب کا یہ نتیجہ نہیں نکلنا چاہیے کہ مصر میں ایران کی طرح کی مذہبی ریاست قائم ہو یا وہاں ویسے حالات پیدا ہوں جیسے غزہ پٹی میں دیکھنے میں آتے ہیں، جہاں حماس کی حکومت ہے۔ اس بارے میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک خصوصی اجلاس آئندہ پیر یعنی چودہ فروری کو ہو رہا ہے۔
اب شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کا استحکام اس حوالے سے فیصلہ کن ہو گا کہ جمہوریت کا جو شعلہ نظر آ رہا ہے، آیا وہ خطے کی دوسری ریاستوں تک بھی پہنچتا ہے یا نہیں۔ فی الحال حیران ہوتے ہوئے اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے صرف یہ امید ہی کی جا سکتی ہے کہ مصر میں یہ تاریخی انقلاب پرامن ہی رہے گا۔
تحریر: بیرنڈ ریگرٹ / مقبول ملک
ادارت: شادی خان سیف