مصر میں صدر حسنی مبارک کے خلاف ’یوم غضب‘
25 جنوری 2011واضح رہے کہ مصر میں گزشتہ لگ بھگ تین عشروں سے صدر حسنی مبارک برسر اقتدار ہیں۔
شمالی افریقہ کے اس عرب ملک پر پڑوسی ریاست تیونس کے انقلابِ یاسمین کے اثرات واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ تیونس کے صدر زین العابدین بن علی بھی دو عشروں تک حکمران رہے مگر عوامی تحریک کے بعد ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ اہم بات یہ ہے کہ مصر کی معاشی حالت تیونس سے بھی خراب ہے۔
مصر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق دارالحکومت قاہرہ میں ’حسنی مبارک مردہ باد‘ کے نعرے لگائے گئے۔ مظاہرین کے رہنماؤں نے 82 سالہ صدر حسنی مبارک کے بیٹے جمال مبارک سے بالواسطہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے والد تک یہ پیغام پہنچائیں کہ ’عوام ان سے نفرت کرتے ہیں۔‘ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ طویل حکمرانی کے بعد حسنی مبارک اب اپنے بیٹے کو اقتدار کی مسند پر بیٹھا دیکھنا چاہتے ہیں۔
اب تک قاہرہ حکومت کا مخالف عوامی اور سیاسی محاذ صرف انٹرنیٹ کی دنیا میں سرگرم تھا لیکن اب یہ معرکہ سڑکوں پر سر کرنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ فیس بک پر عربی زبان میں ایک ایسی تحریک شروع کی گئی ہے، جسے ’جبر، بے روزگاری، بد عنوانی اور غربت کے خلاف انقلاب‘ کا نام دیا گیا ہے۔ نوے ہزار افراد اس کے رکن ہیں۔ اس تحریک کے فیس بک پیج پر لکھے گئے پیغامات میں تیونس کے انقلات کی تقلید کے پرزور نعرے بھی شامل ہیں۔
مصری وزارت داخلہ خبردار کر چکی ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ ادھر شمالی مصری شہر سینائی سے بھی مظاہروں کی اطلاعات ہیں۔ مظاہروں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے مصر کے سولہ بڑے شہروں میں احتجاجی سلسلوں کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے مصری حکومت پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ پر امن مظاہرین پر جبر کرنے سے باز رہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک