مصراتہ کے باغی نوجوانوں کے لڑنے کے انداز میں پختگی
19 جولائی 2011نوجوانوں کی دلچسپیوں کا محور بالوں کے فیشن، کپڑے، موسیقی، موبائل فون اور ریستورانوں میں گھومنا پھرنا تھا۔ یہ بات المصراتہ رجمنٹ کی پہلی بٹالین کے بانی اور اس کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے تاجر محمود عسکتری نے بتائی۔ محمود عسکتری کا کہنا ہے کہ نوجوانوں نے لڑنا سیکھ لیا ہے اور اب وہ اپنے ’عظیم مقصد کی خاطر جانیں قربان کرنے‘ سے بھی گریزاں نہیں ہیں۔
رواں برس کے اوائل میں دنیائے عرب کو اپنی لپیٹ میں لینے والے عوامی مظاہروں کے دوران مصراتہ اور لیبیا کے دیگر علاقوں کے عوام نے بھی مزید آزادیوں کا مطالبہ کیا جس پر معمر قذافی نے انہیں کچلنے کے لئے اپنی فوجیں بھیج دیں۔ فوج کی جانب سے مظاہرین پر گولی چلانے کے بعد مصراتہ کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے پٹرول بموں اور شکار کے لیے استعمال ہونے والی رائفلوں سے مزاحمت کا آغاز کر دیا۔
اس کے بعد انہوں نے قذافی کے حامیوں سے لیبیا کے اس تیسرے بڑے شہر کا کنٹرول حاصل کر لیا اور کئی جانوں کے ضیاع پر منتج ہونے والی غلطیوں کے بعد سابق شہریوں پر مشتمل اس فوج نے مصراتہ کے مغرب میں 36 کلومیٹر دور اگلے محاذ پر اپنی پوزیشن مستحکم بنا لی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے اپنے سے بہتر تربیت یافتہ فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے اسے آہستہ آہستہ پیچھے بھی دھکیل دیا۔
اب باغی مصراتہ اور دارالحکومت طرابلس کے درمیان سب سے بڑے شہر زلطن سے دس کلومیٹر دور مشرق کی جانب پہنچ چکے ہیں جو ان نوجوانوں کی ہمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عسکتری نے اگلے محاذ پر المصرہ کے مزاحمت کاروں سے ملاقات کے لیے جانے سے قبل بتایا ’وہ میرے ساتھ انتہائی ادب و احترام سے پیش آتے ہیں۔ تاہم جب میں انہیں دیکھتا ہوں تو خود کو زیادہ احترام کے قابل نہیں سمجھتا۔ چند ماہ قبل وہ عام شہری تھے مگر اب وہ اپنی آزادی کی خاطر جان دینے کو تیار ہیں‘۔
صلاح یہاں اگلے محاذ پر لڑنے والا ایک عام سا نوجوان ہے۔ جب بغاوت کا آغاز ہوا تو یہ بیس سالہ نوجوان اس وقت ایک میڈیکل اسکول میں زیر تعلیم تھا۔ زندگی آسان تھی اور یہ نوجوان اپنا زیادہ وقت فٹ بال یا پلے اسٹیشن پر گیمز کھیلتے گزارتا تھا۔ پلے اسٹیشن پر اپنے ریکارڈ کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ ففٹی ففٹی ہے۔ دیگر نوجوانوں کے ہمراہ بیٹھے ہوئے اس نے کہا کہ وہ ایف سی بارسلونا کا بہت بڑا مداح ہے۔ ایک دوسرے نوجوان نے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا کہ اسے ریئل میڈرڈ پسند ہے جبکہ تیسرا نوجوان اپنے جوتے پر مانچسٹر یونائیٹڈ کے بنے ہوئے نشان کو خاموشی سے دیکھتا رہا۔
صلاح جنگ کے بعد اپنے شہر واپس لوٹنے کا ارادہ رکھتا ہے کیونکہ اس کی خواہش ہے کہ وہ امراض قلب کا ڈاکٹر بنے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ ہمیں سب سے پہلے قذافی کو شکست دینا ہوگی کیونکہ اس کے دور اقتدار میں ہم آزادی کا سانس نہیں لے سکتے۔
کیمرہ بھی ایک ہتھیار
بغاوت شروع ہونے کے بعد سے ہی شہر میں موبائل فون سروس بند ہے مگر اس کے باوجود اگلے محاذ پر موبائل فون عام دیکھے جا سکتے ہیں۔ نوجوان ان سے ایک دوسرے کی تصویریں کھینچتے ہیں اور جنگ کی ویڈیو بناتے ہیں۔ ان میں سے بعض ای میل پتوں کا تبادلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں حالانکہ مصراتہ کے اکا دکا مقامات پر ہی انٹرنیٹ کی سروس دستیاب ہے۔ جدید وقت کی ایک اور نشانی المرسا میں ایک شوقیہ ویڈیو گرافر کی موجودگی بھی ہے۔ گول چشمے لگائے تئیس سالہ یزید مائیکرو بائیالوجی کا طالب علم ہے اور وہ تمام وقت اپنا ویڈیو کیمرا پاس رکھتا ہے۔
وہ لڑائی میں دو بار زخمی ہو چکا ہے اور دائیں ران میں گولی اور بائیں گھٹنے میں چھرہ لگنے کے باعث اسے چلنے میں تکلیف ہوتی ہے اور اس کے لیے دوڑنا تقریباﹰ ناممکن ہے۔ کیمرے کو ہاتھ میں اٹھا کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ میرا ہتھیار ہے۔
ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس اور ہر طرح کے جوتے پہنے ہوئے ان نوجوانوں نے چند ماہ کے دوران کافی طویل سفر طے کر لیا ہے۔ جب قذافی کی فورسز قریبی فاصلے سے ان پر گراڈ راکٹ داغتی ہیں تو وہ اس کا مزاق اڑاتے ہیں کیونکہ وہ اس میں مہارت نہیں رکھتے۔ تاہم وہ مارٹر حملوں سے گھبراتے ہیں کیونکہ جب گولے ان کے قریب آ کر گرتے ہیں تو انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔
اکیس سالہ احمد کا کہنا ہے کہ مجھے گراڈ راکٹوں سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن مارٹر گولے خطرناک ہیں۔ انجینئرنگ کے طالب علم احمد نے ایک زیر زمین بنکر میں اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ پناہ لے رکھی ہے جسے وہ مذاق سے فائیو اسٹار ہوٹل کا نام دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مارٹر گولوں کے چھوٹے ٹکڑے جسم کو کاٹ سکتے ہیں۔ جب مارٹر گولہ چلنے کی آواز آتی ہے تو بہت سے لوگ اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہیں۔
مارٹر گولوں کے خدشات کے باوجود نوجوان جذبے سے سرشار ہیں۔ اکیس سالہ علی نے جنگ کے بعد مستقبل کے بارے میں سوال پر سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے اب اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ میرا مقصد صرف قذافی کا خاتمہ ہے۔ روئٹرز سے بات چیت کے بعد علی ٹانگ میں چھرہ لگنے سے زخمی ہو گیا تھا مگر وہ لڑنے کے لئے دوبارہ لوٹ آیا ہے۔ مصراتہ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف میڈیکل ٹیکنالوجی کی لیکچرار عقیلہ ارفائدہ کا کہنا ہے کہ انقلابیوں کے نزدیک جنگ میں آنے والے زخم ان کے اعزازات ہیں۔
طارق مادی نامی ایک سابق بینکار کی زیر قیادت نوجوان فخریہ انداز میں اپنے زخموں کے نشانات دکھاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ایک سے زائد بار زخمی ہو چکے ہیں اور ان کی عمریں سترہ سے بیس سال کے درمیان ہیں۔ زخمی ہونا ایک الگ چیز ہے اور اپنے دوستوں کو موت کے گھاٹ اترنے دیکھنا ایک بالکل مختلف تجربہ۔
مصراتہ کے الحکمہ ہسپتال کے باہر نوجوان اپنے ہلاک ہونے والے ساتھیوں کی موت پر آنسو بہاتے دکھائی دیتے ہیں۔ محاذ جنگ کے نزدیک ترین فیلڈ ہسپتال میں معمولی زخمی نوجوان بغیر قمیضوں کے گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے جسموں پر پٹیاں بندھی ہوتی ہیں اور وہ اپنے زخموں کی بجائے اپنے ہاتھوں میں دم توڑنے والے دوستوں کے لئے سسکیاں لے لے کر رو رہے ہوتے ہیں۔
ان نقصانات کا اندازہ سفیان جیسے نوجوانوں کے چہروں سے لگایا جا سکتا ہے، جس نے ہنس کر کہا کہ جنگ تو ایک پرلطف تجربہ ہے مگر اس کی آنکھیں اس کی ہنسی کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ جب وہ آپ کی جانب دیکھتا ہے تو نوجوان چہرے سے عمر رسیدہ آنکھیں جھانکتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس نے کہا، ’’اب ہم نے یہ جدوجہد شروع کر دی ہے اور ہم اسے طرابلس تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔ اگر قذافی واپس آنا چاہے گا تو اسے ہماری لاشوں پر سے گزرنا پڑے گا۔‘‘ شہر کے محمد ارہیام جیسے عمر رسیدہ افراد اس جذبے سے کافی متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اپنے نوجوانوں سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی بے جگری سے لڑیں گے لیکن وہ اپنے بزرگوں سے کہیں زیادہ بہادر نکلے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: مقبول ملک