مصری صدارتی انتخابات ’ گزشتہ سات برسوں کے اہم واقعات‘
24 مارچ 2018جنوری پچیس2011ء: تیونس کے صدر زین العابدین بن علی کے اقتدار کے خلاف مظاہروں اور اس کے نتیجے میں ان کی معزولی کے بعد ہزاروں مصری شہری حسنی مبارک کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔
جنوری اٹھائیس2011ء: مصر بھر میں مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپیں ہوئیں اور حکومت نے موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند کر دی۔ اس صورتحال میں مبارک نے اپنی کابینہ کو معطّل کرتے ہوئے ملک بھر میں فوج تعینات کر دی۔
گیارہ فروری2011ء: قاہرہ کے التحریر اسکوائر پر کئی روزہ مظاہروں کے بعد حسنی مبارک کی جانب سے منتخب کیے گئے نائب صدر عمر سلیمان نے اعلان کیا کہ صدر مستعفی ہو گئے ہیں اور فوج نے انتظام سنبھال لیا ہے۔
تیس جون2012ء : با اثر اخوان المسلمون کے محمد مرسی اکیاون فیصد سے زائد ووٹ لے کر مصر کے پہلے جمہوری صدر بنے۔
تین اگست2012ء: حسنی مبارک کے خلاف عدالتی کارروائی شروع ہوئی۔ ان پر دیگر کے علاوہ بد عنوانی اور مظاہرین کی ہلاکتوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے۔ انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم بعد ازاں ایک اپیل کورٹ نے انہیں ان الزامات سے بری کر دیا۔
بارہ اگست 2012ء : جزیرہ نما سینائی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں فوجی اہلکاروں کے قتل اور ان کی تدفین کے موقع پر مرسی کے خلاف احتجاج کے بعد صدر مرسی نے فوجی کمان عبد الفتح السیسی کے سپرد کر دی اور وزیر دفاع کو بھی ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔
تین جولائی 2013ء: محمد مرسی کے خلاف شدید احتجاج کے بعد فوجی سربراہ السیسی نے مرسی کو ان کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے حراست میں لے لیا۔ بعد ازاں ان کے خلاف مقدمہ شروع کیا گیا۔
چودہ اگست 2013ء : پولیس نے قاہرہ میں محمد مرسی کے حق میں لگائے گئے دو کیمپوں پر فائرنگ کرتے ہوئے سات سو لوگوں کو ہلاک کر دیا۔
تیئس ستمبر 2013ء : ایک مصری عدالت نے اخوان المسلون پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس تنظیم کے تمام اثاثے ضبط کر لیے۔
پچیس دسمبر 2013ء : قاہرہ حکومت نے اخوان المسلون کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔
چھبیس مارچ 2014ء: عبد الفتح السیسی نے فوجی سربراہ کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔
مرسی کو سزائے موت بھی ہو سکتی ہے
مصر میں اخوان المسلمون کا نیا انتخابی نام، ایک مسیحی پارٹی کا نائب سربراہمرسی کے لیے عمر قید اور موت کی سابقہ سزا کی توثیق
دو برس میں تبدیلی لے آؤں گا، السیسی
آٹھ جون 2014ء: انتخابات میں 96 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے کے بعد السیسی نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔
دس نومبر 2014ء : پولیس اور فوجی اہلکاروں پر حملوں میں ملوث انصار بیت المقدس نامی تنظیم نے دہشت گرد گروہ اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔
اکتیس اکتوبر 2015ء: ایک روسی جہاز مصر کے ایک تعطیلاتی مقام سے واپس جاتے ہوئے گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں 224 افراد ہلاک ہوئے اور اسلامک اسٹیٹ نےجہاز میں بم نصب کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔
جنوری دس 2016ء: مصر میں ایک نئی پارلیمان کا افتتاحی اجلاس ہوا۔ پارلیمان کی اکثریت السیسی کے حامیوں کی تھی۔
چوبیس مارچ 2017ء: سابق صدر حسنی مبارک کو مظاہرین کے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات سے بری کرتے ہوئے تین سال قید مکمل ہونے پر انہیں آزاد کر دیا گیا۔
اپریل تین 2107ء: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں السیسی کا استقبال کیا اور کہا کہ وہ اپنا کام بخوبی انجام دے رہے ہیں۔
تیئیس اپریل 2017ء: سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی جانب سےالسیسی کا شاہی انداز میں استقبال کیا گیا۔ السیسی دونوں ممالک کے باہمی روابط میں بہتری کی خاطر ریاض پہنچے تھے۔
چوبیس اکتوبر 2017ء: فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے پر السیسی پر سرِ عام تنقید سے گریز کیا۔
گیارہ دسمبر 2017ء: مصر اور روس نے ایک جوہری بجلی گھر کی تعمیر کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ مصر کا پہلا جوہری پاور پلانٹ ہو گا۔
تیئس جنوری 2018: مصری افواج کے سابق چیف آف اسٹاف سامی عنان کو مارچ چھبیس کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار دیا گیا۔ انہیں اس بات پر حراست میں لے لیا گیا کہ انہوں نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے غیر قانونی اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد السیسی کے ممکنہ حریفوں نے انتخابات میں حصہ لینے کے اپنے ارادے بدل ڈالے یا پھر انہیں جیل بھیج دیا گیا۔