1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

سلمان رشدی پر حملہ: مصنف وینٹی لیٹر پر اور بولنے سے قاصر

13 اگست 2022

متنازعہ مصنف سلمان رشدی پر نیویارک میں اس وقت حملہ ہوا جب اسٹیج پر انہیں سامعین سے متعارف کروایا جا رہا تھا۔ ان کے ایک ایجنٹ کا کہنا ہے کہ وہ وینٹی لیٹر پر ہیں اور ان کی صحت سے متعلق خبر اچھی نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/4FUJ4
Österreich | Salman Rushdie | indisch-britischer Schriftsteller
تصویر: HERBERT NEUBAUER/APA/picture alliance

ایوارڈ یافتہ مصنف سلمان رشدی پر 12 اگست جمعے کے روز نیویارک کے ایک دور دراز علاقے میں اس وقت چاقو سے حملہ کیا گیا جب وہ ایک ادبی تقریب کے لیے اسٹیج پر تھے اور ان کے خطاب سے پہلے ان کا تعارف کرایا جا رہا تھا۔ 

عینی شاہدین نے بتایا کہ رشدی اپنا لیکچر شروع کرنے ہی والے تھے، تبھی ایک شخص سٹیج کی طرف تیزی سے بھاگا اور ان پر چاقو سے تابڑ توڑ حملے کرنے لگا۔

سامعین میں ایک ڈاکٹر بھی موجود تھے، جنہوں نے حملے کے بعد مدد کی پیشکش بھی کی۔ انہوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ سلمان رشدی کی گردن میں دائیں جانب ایک زخم کے ساتھ کئی مزید زخم آئے ہیں۔ تاہم ان کی نبض چل رہی تھی۔

 تقریب کے شرکاء نے اس حوالے سے جو تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی ہیں، اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسٹیج پر مصنف سلمان رشدی کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ ابتدائی طبی امداد کے فوری بعد انہیں ہیلی کاپٹر کی مدد سے ہسپتال تک پہنچایا گیا۔

اس تقریب میں موجود بفلو شہر کی ایک خاتون لنڈا ابرامز نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ گرفت میں آنے کے باوجود بھی حملہ آور مسٹر رشدی پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔

محترمہ ابرامز نے کہا، ’’اسے کھینچنے میں پانچ آدمی لگے اور وہ تب تک بھی چھرا گھونپ رہا تھا۔ وہ بس غصے سے بھرا تھا، جیسے شدید طور پر مضبوط اور بہت تیز طرار ہو۔‘‘

مصنف سلمان رشدی کے ایک ایجنٹ اینڈریو وائلی نے بعد میں بتایا کہ رشدی اس وقت وینٹی لیٹر پر ہیں اور جمعے کی شام تک بولنے سے قاصر تھے۔ انہوں نے کہا،’’کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ شاید سلمان کی ایک آنکھ ضائع ہو جائے گی۔ ان کے بازو کی نسیں کٹی ہوئی تھیں اور پیٹ پر چاقو کے حملے سے ان کے جگر کو بھی نقصان پہنچا ہے۔‘‘

Author Salman Rushdie attacked on stage at event in New York
تصویر: Lindsay DeDario/REUTERS

 حکام کا کہنا ہے کہ مسٹر رشدی کی گردن اور پیٹ پر کم سے کم ایک ایک بار وار کیا گیا، جنہیں بعد میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے  پنسلوینیا کے ایک اسپتال لے جایا گیا۔

حملہ آور پولیس کی حراست میں

مبینہ حملہ آور کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس نے بعد میں مشتبہ شخص کی شناخت نیو جرسی سے تعلق رکھنے والے ایک 24 سالہ ہادی مطار کے طور پر کی۔

پولیس نے یہ بھی کہا کہ اس حوالے سے پہلے سے کسی طرح کی دھمکیوں کا کوئی اشارہ نہیں تھا۔ البتہ اس بات کی تصدیق کی کہ حملہ آور کے پاس تقریب میں شرکت کے لیے پاس موجود تھا۔

الجزائر سے تعلق رکھنے والے مصنف اور انسانی حقوق کے کارکن انور رحمانی بھی سامعین میں موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں نے محسوس کیا کہ ہمیں وہاں اور زیادہ حفاظت کی ضرورت تھی، کیونکہ سلمان رشدی کوئی عام مصنف تو ہیں نہیں۔ وہ تو ایک ایسے مصنف ہیں جن کے خلاف فتویٰ جاری ہے۔‘‘

جان سے مارنے کی دھمکیاں

بھارتی نژاد ناول نگار سلمان رشدی نے سن 1981 میں اپنی ایک کتاب ’مڈ نائٹ چلڈرن‘ سے شہرت حاصل کی تھی۔ صرف برطانیہ میں اس کتاب کی دس لاکھ سے بھی زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔ تاہم سن 1988 میں آنے والی ان کی چوتھی کتاب ’سیٹینک ورسیز‘ نے ایک نیا تنازعہ پیدا کر دیا، جس سے مسلمان خاص طور پر ناراض ہو گئے۔

اس کتاب کی وجہ سے ان کے خلاف موت کے فتوے جاری کیے گئے اور نتیجتا رشدی کو تقریبا دس برس تک روپوش رہنے پر مجبور ہونا پڑا۔

Satanische Verse von Salman Rushdie
تصویر: Tony White/AP/picture alliance

ایرانی رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی نے بھی ایک "فتویٰ" جاری کیا تھا، جس میں توہین مذہب کے الزامات کے تحت رشدی کو مار دینے کی بات کہی گئی تھی۔ حالانکہ بعد میں ایرانی حکومت نے اس فتوے سے اپنے آپ کو الگ کر لیا تھا۔

75 سالہ رشدی  بھارت کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، تاہم وہ ایک ملحد کے طور پر اپنی شناخت کرتے ہیں۔ فتویٰ جاری ہونے کے بعد تو رشدی روپوش ہو گئے تھے، تاہم گزشتہ کئی  برسوں سے وہ کھلے عام زندگی گزار رہے تھے۔

سن 2016 میں انہوں نے امریکی شہریت حاصل کی تھی اور تبھی سے وہ نیویارک شہر میں رہتے آئے ہیں۔

حملے پر رد عمل

سلمان رشدی کو ان کے کام کے لیے عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ ان کی کتاب "مڈ نائٹ چلڈرن" کے لیے سن 1981 میں انہیں بوکر پرائز سے نوازا گیا تھا۔ سن 2007 میں ادب کی خدمات کے لیے انہیں نائٹ ہوڈ کا خطاب بھی دیا گیا۔

امریکہ میں آزادی اظہار رائے کی وکالت کرنے والے ایک معروف گروپ پین (پی ای این) کا کہنا ہے کہ وہ حملے کے بعد "صدمے اور خوف سے دوچار ہے۔" خود رشدی بھی اس تنظیم کے صدر رہ چکے ہیں۔ 

تنظیم کی چیف ایگزیکٹیو سوزان نوسل نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’سلمان رشدی کو کئی دہائیوں سے محض ان کے الفاظ کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، تاہم وہ کبھی نہیں جھکے اور نہ ہی کمزور پڑے۔‘‘

فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ رشدی ’’نفرت اور بربریت کا شکار ہوئے ہیں۔ عالمگیر سطح پر ان کی لڑائی ہماری ہے، آج ہم پہلے سے زیادہ ان کے ساتھ ہیں۔‘‘

ص ز/ب ج   (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں