معاشی تارکین وطن کی ملک بدریوں میں تیزی پر اتفاق
3 جولائی 2017یورپی یونین کے تین اہم ممالک، جرمنی، اٹلی اور فرانس کے وزرائے داخلہ نے گزشتہ شب پیرس میں ملاقات کی۔ یہ ملاقات اٹلی کی جانب سے حالیہ دنوں کے دوران امدادی بحری جہازوں کے اطالوی ساحلوں پر مہاجرین لانے پر پابندی کی دھمکی کے تناظر میں ہوئی۔ اٹلی کو ملک میں مہاجرین کی مسلسل بڑھتی تعداد اور یورپی یونین کے ارکان کی جانب سے مہاجرین کا بوجھ نہ بانٹنے کے باعث کافی پریشانی کا سامنا ہے۔
پناہ کے لیے مسترد شدہ درخواستوں والے افراد اپنے وطن واپس جائیں، میرکل
ترکی سے اٹلی: انسانوں کے اسمگلروں کا نیا اور خطرناک راستہ
گزشتہ شب ہونے والی ملاقات کے دوران ان تین اہم یورپی ممالک کے وزرائے داخلہ نے کئی امور پر اتفاق کیا۔ اجلاس کے دوران معاشی بنیادوں پر یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تیز تر ملک بدریوں پر بھی اتفاق کیا گیا۔
اس حوالے سے رواں ہفتے کے اختتام پر یورپی یونین کے تمام اٹھائیس ارکان کے سامنے معاشی تارکین وطن کی ملک بدریاں تیز کرنے کے بارے میں تجاویز پیش کی جائیں گی۔
بحیرہ روم میں مہاجرین کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے کئی یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والی سماجی تنظیمیں بھی سرگرم ہیں۔ اطالوی سیاست دان ان تنظیموں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور یہ تک کہا گیا کہ ان سماجی اداروں کے بحری جہاز دراصل مہاجرین کو یورپ پہنچانے میں ’ٹیکسی سروس‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
جرمنی، اٹلی اور فرانس کے وزرائے داخلہ نے اس بارے میں بھی فیصلہ کیا ہے کہ بحیرہ روم میں امدادی کارروائیاں کرنے والی سماجی تنظیموں کے لیے ایک ’ضابطہ اخلاق‘ تشکیل دیا جائے گا۔ یہ تنظیمیں اطالوی ساحلی محافظوں اور یورپ کی بیرونی سرحدوں کے نگران ادارے ’فرنٹیکس‘ کے ساتھ مل کر کام کریں گی۔
اس اجلاس سے قبل اطالوی وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ ان کی حکومت دیگر یورپی ممالک سے مطالبہ کرے گی کہ سمندر سے بچائے جانے والے تارکین وطن کو صرف اطالوی ساحلوں پر لانے کی بجائے دیگر ممالک کی جانب بھی لے جایا جائے۔ تاہم اجلاس کے بعد اس حوالے سے کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔
بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے شمالی افریقی ممالک، بالخصوص لیبیا سے اس برس کے اوائل سے اب تک پچاسی ہزار سے زائد تارکین وطن اٹلی پہنچ چکے ہیں۔ اٹلی پہنچنے والے ان ہزاروں مہاجرین میں سے اکثر کو سماجی تنظیموں ہی نے بحیرہ روم میں ڈوبنے سے بچا کر اطالوی ساحلوں تک پہنچایا تھا۔
گزشتہ شب کی ملاقات کے دوران یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ لیبیا میں مہاجرین کے لیے مدد میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں یورپی یونین اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی کے ساتھ مل کر لیبیا میں مہاجرین کے لیے مزید کیمپ بنائے گی۔
دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں
جرمنی میں نئی زندگی (2): کسے پناہ ملے گی اور کسے جانا ہو گا؟