معاونت کے ساتھ خود کُشی کے رجحان میں ناقابل یقین اضافہ
21 اگست 20142012 ء میں سوئٹزرلینڈ میں اپنی جان خود لے لینے کے 172 واقعات رونما ہوئے تھے، اس کے مقابلے میں 2009 ء میں اس کی تعداد محض 86 تھی۔ سوئٹزرلینڈ وہ یورپی ملک ہے جہاں سہل مرگی یا آرام کی موت سے متعلق قوانین بہت نرم ہیں۔ وہاں جا کر اپنی موت کے کٹھن مرحلے کو آسان بنانے اور تعاون کے ساتھ خود کُشی کرنے والے غیر ملکیوں کی کُل تعداد کا دو تہائی جرمنی اور برطانیہ کے شہریوں پر مشتمل ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں 1940ء میں تعاون کے ساتھ خود کُشی کے فعل کی قانونی طور پر منظوری دے دی گئی تھی۔ اس عمل میں تاہم ایسے شخص کی معاونت جائز قرار دی جاتی ہے جس کی اس موت سے براہ راست کوئی دلچسپی وابستہ نہ ہو۔
’ مرسی کیلنگ‘ یا رحمانہ قتل یورپ کے دیگر ممالک جیسے کہ ہالینڈ، لکسمبرگ اور بلجیم کے علاوہ امریکا کی چند ریاستوں میں قانونی طور پر جائز ہے تاہم بہت سے ممالک میں قانونی طور پر اس کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے ممالک یا معاشروں میں زندگی سے بیزار افراد کو باہر جانے کی ترغیب دلائی جاتی ہے جہاں وہ اپنے چاہنے والوں اور رشتہ داروں اور عزیزوں کے خوف یا اس خوف بے نیاز ہو کر کہ اُن کے ڈاکٹر پر مقدمہ دائر ہو سکتا ہے، اپنی زندگی ختم کر سکتے ہیں۔
برطانیہ اور فرانس کی عدالتوں سمیت یورپ کی ہیومن رائٹس کی عدالت میں گزشتہ چند مہینوں سے یہ حساس موضوع زیر غور ہے۔
تعاون کے ساتھ خود کُشی کرنے والے مریضوں کے بارے میں اس حالیہ مطالعاتی جائزے میں جن افراد کو شامل کیا گیا تھا ان میں سے قریب نصف اعصابی عارضوں کے شکار، فالج کے مریض، موٹر نیورون سے متعلق بیماریوں میں مبتلا افراد، پارکنسن اور سکلیروسز یا نسیج یا بافتوں کی سختی سے پیدا ہونے والے مرض کے شکار افراد تھے۔
دریں اثناء سوئٹزرلینڈ میں بھی تعاون حاصل کر کہ خود کُشی کے کیسز کی تعداد پر گرما گرم بحث شروع ہو گئی ہے۔ 2011 ء میں زیورخ کے ضلعوں میں اس بارے میں ہونے والی رائے شماری میں شامل ووٹروں نے تعاون کے حصول سے خود کُشی کے بارے پر مجوزہ پابندی کو رد کر دیا تھا۔ ایک سال بعد قومی پارلیمان نے اس رجحان، جسے ’ خود کُشی کی سیاحت‘ بھی کہا جاتا ہے، پر کنٹرول سخت کرنے کے خلاف فیصلہ دے دیا۔
2008 ء سے 2011 ء کے درمیان سوئٹزرلینڈ جاکر خود کُشی کے لیے تعاون حاصل کرنے والے 611 افراد کا تعلق دنیا کے مختلف 31 ممالک سے تھا اور ان کی اوسط عمر 69 برس بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے قریب نصف جرمنی سے آئے تھے جبکہ 20 فیصد کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ اس فہرست میں ٹاپ 10 ممالک میں فرانس اور اٹلی شامل ہیں۔ ان دونوں ممالک میں اس طرح کی خود کُشی کرنے والوں کی تعداد میں ناقابل یقین اضافہ ہوا ہے۔