معمر قذافی اور افریقی یونین
5 فروری 2009ان کا تصور يہ ہے کہ ايک متحد افريقی ملک کی مشترکہ فوج، مشترکہ کرنسی اورايک ہی پاسپورٹ ہو۔ رياست ہائے متحدہ افريقہ کے دفاع کے لئے دو ملين کے لگ بھگ فوج ہونا چاہئے۔
سن 2007 ميں افريقی ہمسايہ ممالک نے قذافی کے منصوبے کی مخالفت کی تھی اوراس بار بھی ايک متحدہ افريقی رياست کی تجويز پر کچھھ بحث تو ہوئی، ليکن کسی گہری تبديلی کے آثار نظرنہيں آتے۔ افريقی يونين کے کميشن کوايک محکمہ بنانے اوراس کے اختيارات ميں اضافہ کرنے کا فيصلہ کيا گيا۔ اس کے بجٹ ميں بھی اضافہ کرديا گيا ہے۔ قذافی نے کہا کہ رياست ہائے متحدہ افريقہ کے جواز ميں دلائل چھھ ماہ بعد ہونے والی افريقی يونين کی اگلی سربراہ کانفرنس ميں پيش کئے جائيں گے۔
قذافی کے لڑکے اور افريقی يونين کے لئے لنبيا کے نمائندے احمد نے کہا کہ ’’ہميں بہت خوشی ہے کہ افريقی ملک اس طرح سے متفق ہوگئے ہيں ۔ مذاکرات کا نتيجہ ابھی مکمل طور سے اطمينان بخش نہيں، ليکن ہميں يقين ہے کہ ہم قدم بقدم اور دن بہ دن رياست ہائے متحدہ افريقہ کے ہدف کے قريب آتے جارہے ہيں۔‘‘
تاہم عالمی اورعلاقائی مطالعات کے جرمن انسٹيوٹيٹ کے سابق ڈائریکٹر رولف ہوف ماير نے کہا کہ ابھی اس کے کوئی آثار نظرنہيں آتے۔ وہ کئی برسوں سے افريقی يونين کا جائزہ لے رہے ہيں۔
انہوں نے کہا کہ افريقی يونين کا کميشن سابق افريقی يونين تنظيم کی جگہ يورپی يونين کميشن کی طرز پرقائم کيا گيا ہے ليکن اس نئے ليبل سے صرف يہ تاثردينا ہے کہ پيش رفت ہوئی ہے، ورنہ درحقيقت اس کا تنظيم کے کام پر کوئی اثرنہيں پڑے گا کيونکہ اب قذافی افريقی يونين کے نئے صدر ہيں، اس لئے مزيد ناقابل اندازہ واقعات پيش آ سکتے ہيں۔
بعض افريقی ملک مثلا سينيگال ايک متحدہ افريقی ملک کے، قذافی کے نظريے کے حامی ہيں کيو نکہ انہيں سياسی اتحاد کے ذريعہ زيادہ اقتصادی کاميابی کی اميد ہے۔ تنزانيہ کے ماہرسياسيات عيسی شوجی نے کہا کہ افريقی اتحاد کے نظرئیے کو شروع کرنے والے قذافی نہيں ہيں بلکہ يہ سن 1950 کے عشرے سے پايا جاتا ہے۔ يہ افريقہ ميں تنازعات کے حل کے لئے اہم ہے۔ پچھلے پچاس برسوں کے دوران افريقہ پرمختلف نوآبادياتی طاقتوں کا قبضہ رہا۔ سياسی طور سے زيادہ متحد ہوئے بغير اقتصادی کاميابی بھی ممکن نہيں ہے۔