معمر قذافی، جنگ بندی کے لیے تیار
30 اپریل 201180 منٹ تک جاری رہنے والی اس تقریر میں قذافی نے ہاتھ میں کاغذوں کا ایک دستہ پکڑ رکھا تھا، جس پر بظاہر ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر وہ پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے نیٹو سے حملے روکنے کا مطالبہ کیا اور کہا، ’لیبیا جنگ بندی کے لیے تیار ہے مگر یہ یک طرفہ نہیں ہو گی‘۔ قذافی نے کہا کہ امن کا دروازہ ابھی کھلا ہے۔ قذافی نے اپنے خطاب میں ایک مرتبہ پھر اقتدار چھوڑنے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو وہ اقتدار سے الگ ہوں گے اور نہ ہی ملک چھوڑیں گے، ’ہم نے سب سے پہلے جنگ بندی کا خیرمقدم کیا تھا اور ہم نے ہی سب سے پہلے جنگ بندی کو تسلیم بھی کیا تھا، تاہم نیٹو نے اپنے حملے نہ روکے‘۔
لیبیا میں رواں برس فروری میں غیرتربیت یافتہ اور ناقص ہتھیاروں کے حامل اپوزیشن گروپوں نے 41 برسوں سے ملک پر حکومت کرنے والے معمر قذافی کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور بعد میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کو بنیاد بنا کر شہریوں کے تحفظ کے لیے نیٹو ممالک نے بھی معمر قذافی کی حامی فورسز کے خلاف لڑاکا طیاروں کی مدد سے حملے شروع کیے تھے، جو تاحال جاری ہیں۔
قذافی نے اپنے خطاب میں نیٹو افواج پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ ان کی طرف سے کیے جانے والے فضائی حملے اور بحری گشت اقوام متحدہ کے مینڈیٹ سے تجاوز کر چکے ہیں۔ انہوں نے روس، چین، افریقی اور لاطینی امریکی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر نظرثانی کے لیےسکیورٹی کونسل پر دباؤ ڈالیں۔
قذافی نے کہا کہ لیبیا کے خلاف عائد کی گئی پابندیوں اور نیٹو طیاروں کے حملوں کے نتیجے میں عام شہری متاثر ہو رہے ہیں جبکہ لیبیا کا انفراسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اپنے گزشتہ بیانات میں باغیوں کو ’چوہے‘ اور دہشت گرد کہنے والے قذافی کا لہجہ اس خطاب میں خاصا نرم تھا۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا کے باشندوں کوآپس میں نہیں لڑنا چاہیے۔
رپورٹ عاطف توقیر
ادارت عاطف بلوچ