معیشت میں بہتری کے دعوے
16 مارچ 2021حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ معیشت بہتری کی طرف جا رہی ہے اور جلد ہی یہ مکمل طور پر بحال ہو جائے گی۔ تاہم کچھ ناقدین ان حکومتی دعووں کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔
اضافہ ہوا ہے
واضح رہے کہ گزشتہ برس کورونا کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو شدید نقصان پہنچا تھا اور ملکی معاشی شرح نمو منفی ہو گئی تھی۔اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے مالی پیکیج نے بھی پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچایا تھا۔ معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ معیشت سن 2018 کی شرح نمو کی طرف جارہی ہے۔
پاکستان میں تعمیراتی سرگرمیوں کا آغاز
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہ صحیح ہے کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ جو نو اعشاریہ تیرہ فیصد ہے، یعنی یہ انڈیکس پر 175 اعشاریہ پندرہ پوائنٹس ہے۔ یہ انڈیکس دوسری دفعہ اتنا اوپر گیا ہے۔پہلی مرتبہ انڈیکس 2018 میں اوپر گیا تھا۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ اس اضافے کی وجہ شرح سود میں کمی اور دوسرے عوامل ہیں۔"
کیا یہ برقرار رہے گا
معاشی معاملات میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے اور کبھی شرح نمو بہت اچھی جاتی ہے اور کبھی اچانک یہ گر جاتی ہے۔لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں تیزی کے حوالے سے بھی یہی خدشات ہیں۔ تاہم سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ اگر عالمی معیشت میں کوئی بڑی گراوٹ نہیں آئی تو ہم اس رفتار کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ "اگر عالمی معیشت میں کوئی جھٹکا نہیں لگا تو یقینا ہم اس رفتار کو برقرار رکھ سکتے ہیں اور مزید بہتر بھی کر سکتے ہیں۔ اگر تیل کی قیمتوں میں کوئی اچانک اضافہ نہیں ہوتا یا کوئی بڑا معاشی بحران نہیں آتا تو ہم اس کو برقرار رکھ سکتے ہیں، سیمنٹ، ٹیکسٹائل، تعمیرات اور دوسرے کئی شعبوں میں تیزی آرہی ہے۔"
ايک طرف چندے کی اپيليں، دوسری طرف صنعتوں کے ليے ٹيکس ميں رعايات
اب بھی منفی ہے
وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ ابھی بھی منفی گروتھ میں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "گزشتہ برس اپریل میں لاک ڈاؤن، عالمی معیشت میں گراوٹ اور دوسرے عوامل کی وجہ سے پاکستان کی لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 40% منفی گروتھ ہوئی تھی اور اب اس سال جون میں اپریل 2019 کے اعداد و شمار آئیں گے۔اگر ان اعداد و شمار میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 40 فیصد اضافہ ہوتا ہے، تو پھر ہمارا حساب برابر ہوگا۔"
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد دیکھنا ہوگا کہ معیشت میں کوئی حقیقی بہتری آئی ہے یا نہیں۔
ناقدین کا موقف
تاہم کچھ ناقدین حکومت کے ان اعداد و شمار کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی معیشت دان ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کے اعداد و شمار پر یقین نہیں ہیں۔"اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اس حکومت کی ساکھ اچھی نہیں ہے۔"
کپاس کی پیداوار میں کمی: کیا شوگر مافیا ذمہ دار ہے؟
تیزی مستقل نہیں
پاکستان کے معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے معروف تجزیہ نگار ضیاء الدین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی وجہ سے معیشت ایک بار پھر متاثر ہوگی۔ "ملک میں کورونا کا مسئلہ ایک بار پھر اٹھ رہا ہے، جس کی وجہ سے معیشت متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ حکومت کو لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑے گا، جس سے پیداوار بری طرح متاثر ہو گی۔ اس کے علاوہ ہم آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں، جو سخت شرائط رکھے گا اور جو ٹیکسوں میں چھوٹ دی ہے ہمیں وہ ختم کرنی پڑے گی۔ اس تمام عمل سے معاشی سرگرمیاں بھی متاثر ہوگی اور پیداواری سرگرمیاں بھی، تو میرے خیال میں یہ عمل مستقل نہیں چل سکتا۔"