’مغرب مسیحیت کے ذریعے چینی ریاست کو ماتحت بنانا چاہتا ہے‘
13 مارچ 2019چین کی سرکاری طور پر ایتھیسٹ یا لادین حکومت، جو ملک میں ریاستی سرپرستی میں چلنے والے مذہبی اداروں کے ذریعے مختلف مذاہب کی پیروکاری کی نگرانی کرتی ہے، نے حالیہ کچھ برسوں میں مختلف مذاہب سے متعلق اپنی پالیسیوں کو سخت بنایا ہے۔
سرکاری حمایت یافتہ نیشنل تھری سیلف پیٹریاٹک موومنٹ کمیٹی کے سربراہ شو شیاہونگ نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا، ’’مغربی دنیا میں موجود چین مخالف قوتیں اس کوشش میں ہیں کہ مسیحیت کو استعمال کر کے چین کے سماجی استحکام کو نقصان پہنچائیں اور اس طرح ریاست کی سیاسی طاقت کو کم زور کیا جائے۔‘‘
چین میں دس لاکھ مسلمانوں کے حراستی کیمپوں کی حیثیت اب قانونی
ترکی میں ’جہاد ‘ درسی نصاب میں شامل، علویوں کو تشویش
چین کی عوامی سیاسی کنسلٹیٹیو کانفرنس کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، شیاہونگ نے کہا کہ چین میں مغربی طرز کی مسیحیت متعارف کرانا، اصل میں مغربی دنیا کی ’نوآبادیاتی جارحیت‘ کا حصہ ہے۔
شیاہونگ کا کہنا تھا کہ مسیحیت میں چینی ثقافت شامل کر کے ہی اسے ایک ایسا تشخص دیا جا سکتا ہے، جو چینی عوام کے لیے قابل شناخت ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ مسیحیت کے نام پر قومی سلامتی کو کم زور بنانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے ریاستی اقدامات کی حمایت کی جائے گی۔
ان کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب امریکا کے خصوصی مندوب برائے آزادیء مذہب سیم براؤن بیک نے چند روز قبل اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ چینی حکومت مختلف مذاہب کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ ان کا یہ بیان ایغور مسلمانوں، بدھ مت کے تبتی بھکشوؤں اور مسیحیوں کی حالت زار کے تناظر میں دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ چین میں پروٹیسٹنٹ مسیحی ریاستی حمایت یافتہ چرچ اور غیرسرکاری چرچ بٹے ہوئے ہیں۔ سرکاری حمایت یافتہ گرجا گھروں میں دعائیہ عبادات میں کمیونسٹ پارٹی کے گیت بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ دوسری جانب حالیہ کچھ برسوں میں غیر سرکاری یا انڈرگراؤنڈ گرجا گھروں کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ ہوا ہے اور ایسے گرجا گھروں کے بعض ارکان کو ’ملک دشمنی‘ کے الزامات کے تحت حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
ع ت، ع س (اے پی)