Notfallbegleitung Muslime
6 اپریل 2011حادثے ميں موت، کسی بچے کی اچانک موت يا خود کشی، يہ ايسے سانحے ہيں جن سے دوچار ہونے والوں کو سہارے، ہمدردی اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ مغربی ملکوں ميں، جہاں خاندانی رشتے اور بندھن اتنے مضبوط نہيں رہے، ايسے مواقع پر مسيحی اور کليسائی اداروں کی طرف سے متاثرہ افراد اور گھرانوں کی ديکھ بھال اور جذباتی و روحانی مدد کی جاتی ہے۔ ليکن ان مغربی ممالک ميں رہنے والے مسلمانوں کو ايسے مواقع پر مسلمانوں ہی کی طرف سے مدد ملنا چاہيے جو ان کے مذہبی جذبات اور ضروريات کو بھی سمجھ سکيں۔ يورپ کے دوسرے ملکوں کی طرح اب جرمنی ميں بھی اس ضرورت کا احساس پيدا ہوا ہے۔
شہرکولون کی ايک 30 سالہ ڈاکٹر کاترين فوسُوگی مسلمان ہيں۔ وہ روحانی اور جذباتی لحاظ سے انتہائی مشکل حالات سے گذرنے والے مسلمانوں کو سہارا دينا چاہتی ہيں۔ کيونکہ وہ خود بھی مسلمان ہيں اس لئے وہ صدمے سے دوچار ہونے والے مسلمانوں کے جذبات اور ضروريات کو بہتر طور پر سمجھ سکتی ہيں۔ انہوں نے کہا: ’’ ايک ڈاکٹر کی حيثيت سے ميں ہميشہ ہی دوسروں کی مدد کو اپنا فرض سمجھتی ہوں۔ اب مجھے ذرا دوسری باتيں جاننے کا موقع بھی ملے گا کيونکہ ڈاکٹر کی حيثيت سے کسی ہنگامی صورتحال ميں مجھے مريض يا مرنے والے کے اقارب پر توجہ دينے کا موقع ہی نہيں ملتا ہے۔‘‘ انہوں نے يہ بھی کہا کہ اس ميدان ميں اپنی پہلی مصروفيت سے انہيں کوئی خوف نہيں ہے کيونکہ موت سے مقابل ہونا اُن کے پيشے کا حصہ ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے جرمن شہر کولون ميں مسلمانوں کا ايک گروپ ہے جو ہنگامی حالات ميں موقع پر مسلمانوں کے کام آتا ہے۔ بلا معاوضہ کام کرنے والے ان اعزازی کارکنوں کو اس کی تربيت ايک چھ روزہ بنيادی کورس ميں دی جاتی ہے جس کا انتظام اسلامی مسيحی سوسائٹی، مسلم اور مسيحی تنظيموں کے تعاون سے پيش کرتی ہے۔ يہ اعزازی کارکن، روحانی صدمات کے موقع پر مدد فراہم کرنے والی مقامی تنظيموں کے تعاون سے کام کرتے ہيں۔
کاترين فوسوگی نے جس کورس ميں اس کی اہليت حاصل کی ہے وہ اس قسم کا دوسرا کورس ہے کيونکہ ابھی تک ذہنی اور روحانی صدمات سے دوچار ہونے والے مسلمانوں کی، اسلامی نوعيت کی مدد کا کوئی انتظام نہيں تھا۔ مسيحی اسلامی سوسائٹی کے سربراہ ٹومس ليمين نے کہا کہ اسلام ميں افراد اور معاشرے کے فرائض اور ذمے داريوں کا تعين ہے۔
صدمے سے دوچار ہونے والے مسلمانوں کی مدد کے سلسلے ميں مذہب کے ساتھ ساتھ زبان کا بھی بڑا د خل ہے۔ ايک امدادی کارکن، ترک نژاد خاتون ہوؤليا دوگان نے کہا: ’’ مجھے ايک جوان لڑکی کو سہارا دينا تھا جس کا بچہ فوت ہو گيا تھا۔ کيونکہ وہ بھی مسلمان اور ترک تھی اس لئے ميرے لئے اس کے جذبات اور احساسات کو سمجھنا مشکل نہيں تھا۔‘‘ ايک اور ترک خاتون اعزازی کارکن نے کہا: ’’ مجھے ايک گھرانے کی مدد کے لئے بلايا گيا جس کے سربراہ نے خودکشی کر لی تھی۔ کيونکہ ان کی اور ميری زبان ايک تھی اس لئے مجھے ان کے قريب آنے ميں آسانی ہوئی۔‘‘ بعض گھرانے مذہب سے قريب ہوتے ہيں اور وہاں دعا کرنے سے ان گھر والوں کو سہارا اور سکون ملتا ہے۔ ايسے مواقع پر ميڈيا کو نہيں ہونا چاہيے۔ اسلام ميں عورتوں کی ميت کو مرد ہاتھ نہيں لگا سکتے۔
ہنگامی حالات ميں مدد کے کورسوں ميں يہ بتايا جاتا ہے کہ کيا طرز عمل اختيار کيا جانا چاہيے،کس قسم کی بات چيت انتہائی ضروری ہے اور موت کی خبر مرنے والے کے گھرانے کو کس طرح پہنچانا چاہيے۔
کولون ميں يہ اسلامی امدادی انتظام کوئی ايک سال سے جاری ہے اور اب جرمنی کے دوسرے شہروں، مثلاً بون ميں بھی اسے رائج کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس کے لئے کورس اور سيمينارکولون کی اسلامی مسيحی سوسائٹی ہی کی طرف سے پيش کئے جائيں گے۔ ان کے اخراجات،عطيات، رضاکارانہ خدمات اور پراٹسٹنٹ چرچ کی ہنگامی روحانی مدد کے صوبائی کليسائی دفتر کی مدد سے پورے کئے جاتے ہيں۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: کشور مصطفیٰ