مغرب کے ساتھ تعلقات کی پالیسی، نتیجہ کیا نکلے گا؟
17 مئی 2017صدر حسن روحانی کو چار سال کا عرصہ لگا ہے کہ ایرانی کی عالمی سطح پر تنہائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس دوران ان کی سب سے بڑی کامیابی مغربی ممالک کے ساتھ جوہری ڈیل تھی۔ لیکن نئے امریکی صدر آئندہ ویک اینڈ پر ایران کے روایتی حریف سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں جبکہ انہوں نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنے کی بھی دھمکی دے رکھی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایران کی مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی پالیسی کو بھی خطرہ ہے۔
ان انتخابات میں صدر حسن روحانی اور ابراہیم رئیسی کے مابین سخت مقابلہ ہوگا۔ یہ انتخابات کوئی بھی جیتے ایران کی خارجہ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی واقع ہونے کی توقع کم ہی ہے۔ رئیسی نے بھی کہا ہے کہ وہ جوہری ڈیل ختم نہیں کریں گے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ روحانی نے مغرب پر بہت زیادہ بھروسہ کیا ہے۔
چھپن سالہ رئیسی کا ٹیلی وژن پر ہونے والے مباحثے میں کہنا تھا، ’’ہمیں دشمنوں کے سامنے اپنی کمزوریوں کا ذکر نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ باقی امیدواروں کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے سے پیچھے ہٹ جانے کی وجہ سے یہ مقابلہ رئیسی اور روحانی کے مابین ہے۔ 68 سالہ مذہبی رہنما روحانی نے اس صدارتی انتخاب کو ’زیادہ شہری آزادیوں‘ اور ’شدت پسندی‘ کے مابین فیصلہ قرار دیا ہے۔
غیرسرکاری عوامی جائزوں کے مطابق ابھی تک صدر حسن روحانی کو اپنے حریف امیدوار رئیسی پر سبقت حاصل ہے اور روحانی یہ انتخاب جیت سکتے ہیں۔ لیکن انہیں اندازوں سے کہیں زیادہ سخت مقابلے کا سامنا ہے کیوں کہ ان کے مخالف امیدوار کا کہنا ہے کہ روحانی کی سفارتی کوششوں سے نہ تو بے روزگاری میں کمی واقع ہوئی ہے اور نہ ہی غربت میں۔
رئیسی ایران میں پس پردہ کام کرتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے رواں سال کے آغاز تک انہیں کم ہی لوگ جانتے تھے۔ رئیسی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے سابق طالب علم ایک قریبی اتحادی بھی ہیں۔ اس لیے انہیں طاقتور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ ترین امیدوار کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کے یہ انتخابات اس سمت کا تعین کریں گےکہ ایرانی عوام مذہبی شدت پسندی کی طرف جانا چاہتے ہیں یا پھر مزید شہری آزادیوں کی طرف۔