مغربی لڑکیاں: داعش میں شمولیت کا راستہ ہے، واپسی کا نہیں
29 مئی 2015اطلاعات کے مطابق یورپی ملکوں سے تقریباﹰ چھ سو لڑکیوں نے شام جا کر داعش میں شمولیت اختیار کی لیکن ان میں سے صرف دو لڑکیاں ایسی ہیں، جو جنگ زدہ علاقے سے واپس آنے میں کامیاب رہیں۔ یورپی حکومتوں اور داعش کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے اداروں کے مطابق لڑکیوں کی نسبت داعش چھوڑ کر واپس آنے والے یا واپسی کی کوششیں کرنے والے مغربی لڑکوں کی تعداد تیس فیصد بنتی ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی نے انٹرویوز، عدالتی دستاویزات اور عوامی ریکارڈز سے داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی یورپی لڑکیوں اور نوجوانوں سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جب مغربی نوجوان داعش میں شمولیت کا ارادہ کرتے ہیں تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ ان کا فیصلہ ان کی نیت سے بھی زیادہ حتمی ثابت ہو گا اور ان کے لیے واپسی کا کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا۔
تجزیاتی رپورٹوں کے مطابق یورپی ممالک کی لڑکیاں جونہی ترکی یا پھر شام کی سرحد عبور کرتی ہیں، ان کی شادیاں کر دی جاتی ہیں۔ اندازوں کے مطابق شام میں تقریباﹰ بیس ہزار غیر ملکی جہادی موجود ہیں اور ان میں سے پانچ ہزار کا تعلق یورپی ملکوں سے ہے۔ شام میں شادی کے متمنی مردوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
داعش کی اپنی ویب سائٹس پر شائع کیے گئے مواد اور منظر عام پر آنے والی خبروں کے مطابق اس جہادی گروپ میں شمولیت کے بعد خواتین کو اپنے مردوں کے بغیر سفر کرنے کی جازت نہیں ہوتی۔ یہ لڑکیاں ایک گروپ کی شکل میں سفر کر سکتی ہیں لیکن اس مقصد کے لیے ان کا برقعے میں ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اگر خواتین ایسا نہیں کرتیں تو انہیں مخصوص سزا بھی دی جا سکتی ہے اور کوڑے بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ دوسری جانب یورپ سے شام جانے والی متعدد لڑکیاں اپنی زندگی سے متعلق بلاگ بھی لکھتی ہیں، جن کے مطابق ان کی زندگی خوشگوار طریقے سے گزر رہی ہوتی ہے لیکن ان بلاگز پر جو ہدایات دی جاتی ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ ان لڑکیوں کی زندگی بہت محدود بھی ہو چکی ہوتی ہے۔ جنگ زدہ علاقوں میں لوڈ شیڈنگ ہے، بنیادی ضرورت کی ادویات کی کمی ہے اور عملی طور پر ان لڑکیوں کی خود مختاری بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
داعش میں شامل ہونے والی لڑکیوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی برطانوی خاتون سارہ خان کہتی ہیں، ’’ان کم عمر لڑکیوں کی زندگیوں پر بہت زیادہ کنٹرول رکھا جاتا ہے۔ ان لڑکیوں کو داعش میں شمولیت بہت رومانوی لگتی ہے، میرا نہیں خیال کہ ایسی لڑکیوں کو کبھی یہ خیال بھی آیا ہو کہ ان کے وہاں جانے کے بعد واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔‘‘
ابھی تک شام سے جو دو لڑکیاں واپس آئی ہیں، ان میں سے ایک کا تعلق ہالینڈ سے ہے اور دوسری کا برطانیہ سے۔ ہالینڈ کی سٹیرلینا پیٹالو نے اسلام قبول کرتے ہوئے اپنا نام عائشہ رکھا تھا۔ عائشہ نے سن دو ہزار چودہ میں شام کا سفر کیا، وہاں ہالینڈ ہی کے ایک جہادی سے شادی کی لیکن اس کے چند ماہ بعد ہی وہ کسی نہ کسی طریقے سے تنہا ترکی پہنچنے میں کامیاب رہی۔ عائشہ کی والدہ ترکی سے اسے واپس گھر لے کر آئیں، جہاں پولیس نے اس لڑکی کو گرفتار کر لیا۔ عائشہ کے والدین اور وکلاء اس بارے میں بات چیت کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں۔ تاہم پولیس نے لڑکی کو کوئی فرد جرم عائد کیے بغیر رہا کر دیا ہے۔ دوسری طرف ایک برطانوی خاتون، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، اپنے بچے سمیت شام گئی تھی لیکن چند ماہ بعد ہی واپس لوٹ آئی۔ پولیس ابھی تک اس بارے میں خاموش ہے کہ اس خاتون نے الرقہ سے ترکی کی سرحد تک 250 کلومیٹر واپسی کا راستہ کیسے طے کیا؟
ایسوسی ایٹڈ پریس کی تفصیلی چھان بین کے بعد تیار کی گئی خصوصی رپورٹ کے مطابق مغربی خواتین کے لیے داعش میں شمولیت کے راستے تو موجود ہیں لیکن ان کی واپسی کے راستے نہ ہونے کے برابر ہیں۔