مغربی ممالک میں رائے عامہ جنگ مخالف
25 فروری 2010اسی دباؤ کی وجہ سے ہالینڈ اپنے فوجیوں کو رواں سال ہی افغانستان سے واپس بلارہا ہے۔ افغانستان میں صرف 1800 ڈچ فوجی متعین ہیں اور یہ امریکی یا برطانوی فوجیوں کی طرح بڑی تعیناتی نہیں ہے۔ یہ ڈچ فوجی جنوبی افغانستان کےاُرزگان صوبے میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں۔
ہالینڈ میں سیاسی حالات کی وجہ سے فوج کی واپسی نیٹو کے لئے مسائل پیدا کرسکتی ہے کیونکہ یہ واپسی ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب کئی مغربی ممالک میں عوام افغانستان میں نیٹو افواج کی موجودگی پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اس واپسی کے حوالے سے سلامتی اور سیاسی امور کے تجزیہ نگاروں کی رائے مختلف ہے۔
بیلجیم کی برسلز یونیورسٹی کے ادارہ برائے یورپین اسٹڈیز سے وابستہ Eva Gross کا اس مسئلہ پر کہنا ہے: ’’ اس ڈچ فیصلے کا دوسرے ممالک کے افغان مشن پر فوری اثر تو نہیں پڑے گا تاہم اس سے افغانستان سے مغربی فوجوں کے انخلاء کے وقت کے حوالے سے بحث ضرور چھڑ جائے گی اور ایسی صورت میں نیٹو کو ڈچ فوجیوں کے جانے کے بعد متبادل ڈھونڈنے میں دشورای ہوگی‘‘۔ آسڑیلیا پہلے ہی ارزگان صوبے میں کوئی کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں اور کینیڈا اگلے سال کے اواخر میں اپنی فوجیں افغانستان سے واپس بلانا چاہتا ہے۔ جرمنی کے پاس اس وقت شمالی افغانستان کی کمان ہے اور برلن نے جنوبی افغانستان میں اپنی فوج بھیجنے سے انکار کردیا ہے۔
اس صورت حال میں اگر کوئی اور ملک متبادل کے طور پر سامنے نہیں آتا تو امریکہ کو خود یہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ افغانستان میں نیٹو کی موجودگی پر کئی مغربی ممالک میں عوام کی طرف سے سوالات اٹھا جا رہے ہیں اور اس موجودگی کو عوامی حمایت حاصل نہیں۔ ایسی صورت میں ہالینڈ کی اندورنی سیاسی صورت حال کی وجہ سے ڈچ فوج کو افغانستان سے واپس بلانے کا عمل باعث تشویش ہے۔
لیکن ایک جرمن تحقیقی ادارے TNS Emnid سے وابستہ Klaus Peter Schoeppner کا کہنا ہے کہ اس ڈچ فیصلے سے جرمنی کے افغان مشن پر کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ انکے مطابق:’’ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ افغانستان میں نیٹو افواج کے بڑی جانی نقصان کی صورت میں بھی مغربی ممالک میں افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کے قیام کے حوالے سے مخالفت بڑھ جائے گی۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ افغان مشن کی اہمیت سے عوام کو آگاہ کیا جائے''۔
رپورٹ :عبد الستار
ادارت :شادی خان سیف