مغربی پابندیاں، کیا پوٹن کا مؤقف بدل سکیں گی؟
16 دسمبر 2014بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 2014ء روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے لیے ایک اچھا برس ثابت ہوا ہے۔ روسی رہنما نے اس دوران کریمیا کو روس کا حصہ بناتے ہوئے عوامی سطح پر داد بٹوری ہے۔ عوامی جائزوں کے مطابق یوکرائن بحران پر مغربی ممالک کے ساتھ تنازعے کی وجہ سے روس میں عوامی سطح پر پوٹن کی حمایت 80 فیصد سے بھی زائد ہو چکی ہے۔ اس سیاست کی وجہ سے نہ صرف روسی بلکہ عالمی سیاسی تجزیہ نگار بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پوٹن اس وقت ماضی کے مقابلے میں اپنی پوزیشن بہت زیادہ مستحکم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
رواں برس نومبر میں امریکی میگزین فوربس نے پوٹن کو سال 2014 کی سب سے زیادہ طاقتور ترین شخصیت قرار دیا تھا۔ فوربس نے گزشتہ برس بھی پوٹن کو عالمی سطح پر سب سے زیادہ بااثر شخصیت قرار دیا تھا۔ ان دو برسوں کے دوران پوٹن نے متعدد مقامات پر مغربی پابندیوں اور امریکی خارجہ پالیسی پر جارحانہ بیانات بھی جاری کیے تھے۔
تاہم ان تمام مراحل کے دوران پوٹن اپنے ملک کو درپیش اقتصادی مسائل کو حل کرنے میں ناکام دکھائی دیے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے روسی کرنسی روبل کی قدر میں ڈرامائی کمی ہوئی ہے جبکہ وہاں افراط زر میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی روسی حکام نے مستقبل قریب میں کساد بازاری اور 2015ء کے قومی بجٹ میں خسارے سے بھی خبردار کر دیا ہے۔
روسی اقتصادیات میں اس مندی کے تناظر میں ماہرین نے یہ بحث شروع کر دی ہے کہ اگر مغربی ممالک روس کے خلاف روایتی جنگ کے بجائے اقتصادی میدان میں محاذ آرائی کرتے ہیں تو کریملن کو شکست دی جا سکتی ہے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے البتہ کچھ ماہرین کے حوالے سے کہا ہے کہ روسی اقتصادیات مجموعی طور پر اتنی زیادہ خستہ حالی کا شکار بھی نہیں ہوئی ہے۔ ویانا انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس اسٹڈیز سے وابستہ ماہر اقتصادیات واسیلے آستروف کے بقول، ’’وہ (روسی حکام) اس وقت کسی خاص مشکل میں نہیں ہیں بلکہ انہیں فوری طور پر دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔‘‘
روسی صدر نے بھی اشارہ دیا ہے کہ یوکرائن کے موجودہ بحران کے حوالے سے وہ اپنا مؤقف بدلنے والے نہیں ہیں۔ چار دسمبر کو عوام سے اپنے خطاب میں پوٹن نے البتہ یہ ضرور کہا تھا کہ آئندہ تین برسوں تک حکومتی اخراجات کو سالانہ بنیادوں پر کم ازکم پانچ فیصد تک کم کرنا ہو گا۔ ناقدین کے مطابق روسی داخلہ پالیسی کا یہی وہ مقام ہے، جہاں مغربی پابندیوں کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔