مغل ہمارے ہیرو کیسے ہو سکتے ہیں؟
15 ستمبر 2020بھارتی ریاست اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت جذبہ قوم پرستی کے فروغ کے لیے کام کرتی رہی ہے اس لیے آگرہ میں تاج محل کے لیے قریب زیر تعمیر 'مغل میوزیم' کا نام بدل کر مراٹھا رہنما چھترپتی شیواجی مہاراج میوزیم کر دیا گیا ہے۔
یو پی حکومت کے ترجمان کے مطابق وزیر اعلی کا موقف ہے کہ غلامی اور ماتحتی کی جتنی بھی علامتیں ہیں، حکومت ان سب کو ختم کرکے رہے گی۔
یوپی حکومت کے ترجمان کی جانب سے مغل میوزیم کا نام تبدیل کرنے کے سلسلے میں ایک بیان میں کہاگیا کہ وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ کا کہنا ہے کہ ''آخر مغل ہمارے ہیرو کیسے ہوسکتے ہیں؟ ''اسی لیے انہوں نے آگرہ کے مغل میوزیم کا نام تبدیل کرکے چتھرپتی شیوا جی مہاراج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ نام عوام میں، ''قوم پرستی اور خود اعتمادی کے جذبات کو جنم دیگا۔''
بیان کے مطابق، ''وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ نے واضح کردیا ہے کہ حکومت نے ہمیشہ قوم پرست نظریات کو فروغ دیا ہے اور کوئی بھی ایسی چیز جو غلامی یا ماتحت رہنے کی علامت ہو اسے ختم کیا جائیگا۔''
آگرہ میں تاج محل کے مشرقی دروازے کے پاس مغل میوزیم کی بنیاد ریاست کی سابقہ اکھیلیش یادو کی حکومت نے 2016 میں رکھی تھی۔ دہلی میں پایہ تخت منتقل کرنے سے پہلے آگرہ اور اس کے پاس فتح پوری سیکری ہی مغلوں کے اہم مراکز تھے جہاں ان کے تعمیر کردہ شاندار قلعے اور مقبرے آج بھی دینا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ سابقہ حکومت نے سیاحوں کو مغلوں کی تاریخ، ان کے دور کے اسلحے اور تہذیب و ثقافت جیسے دیگر پہلوؤں سے روشناس کرانے کے لیے مغل میوزیم تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
سخت گیر ہندو قوم پرست رہنما یوگی ادتیہ ناتھ گزشتہ تین برسوں سے یوپی میں بی جے پی کی حکومت کے سربراہ ہیں اور اس مدت میں انہوں نے متعدد تاریخی نام تبدیل کیے ہیں جس میں تاریخی شہر مغل سرائے کا نام بدل کر دین دیال اپادھیائے اور الہ آباد کا نام پریاگ راج کردینا شامل ہے، اور اب مغل میوزیم کا نام بدلا گیا ہے۔ یوگی ادتیہ نام نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا، ''آپ کے نئے اترپردیش میں غلامی کی ذہنیت کی کوئی علامت نہیں رہے گی۔''
یوگی کی حکومت نے میوزیم کا نام تبدیل کر دیا ہے لیکن یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر اب اس میوزیم میں نمائش کن چیزوں کی ہوگی کیونکہ
چھتر پتی شیوا جی کا تعلق مغربی ریاست مہاراشٹر سے ہے اور آگرہ شہر مغلوں کی تاریخ سے بھرا پڑا ہے، جہاں تاج محل اور آگرے کے قلعہ جیسی عالمی شہریت یافتہ یادگاریں موجود ہیں۔ کیا حکومت کا ارادہ یہ ہے کہ تاج محل کے متصل میوزیم میں مراٹھا تاریخ کا درس دیا جائیگا، یا پھر چھترا پتی شیوا جی کے نام والے میوزیم میں مغلوں کی تہذیب و ثقافت کی نمائش کی جائیگی۔
بھارت کے معروف مورخ ہربنس مکھیا کہتے ہیں کہ حسب معمول یہ بھی ایک سیاسی قدم ہے جس کا مقصد بھارتی ''مسلمانوں کو غیر بتانا ہے۔'' ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت میں انہوں نے کہا، ''ان کی سیاست کا محور مسلمانوں کو غیر بتانا ہے۔ وہ مسلمانوں کو ہم میں سے ایک تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ ایسی قوم پرستی کی بات کرتے ہیں جس میں مسلمان شامل نہ ہوں اور مغلوں کا نام لیکر وہ دراصل مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے وہ اب ہر روزاس طرح کی کوئی نہ کوئی حرکت کر رہے ہیں اور میڈیا کا بھی ایک طبقہ ان کے ساتھ ہے۔''
ہر بنس مکھیا نے تاریخی حقائق پیش کرتے ہوئے بتایا کہ چھتر پتی شیوا جی کا تو آگرہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور اپنی زندگی وہ میں صرف ایک بار شکست کھا کر آگرہ میں اورنگ زیب سے ملنے گئے تھے۔ جے سنگھ انہیں شکست دینے کے بعد اورنگ زیب کے پاس اس لیے لے گئے تھے تاکہ صلح ہوجائے لیکن ایسا نہیں ہو پایا تھا۔ اورنگ زیب کے دربار میں انہیں دوسری صف میں کھڑا کیا گیا تھا اس سے وہ برہم ہوگئے اور ناراضگی ظاہر کی جس کے بعد انہیں وہیں پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ریاست اترپردیش میں اس وقت ہر جانب لاقانونیت کا بول بالا ہے جس کے لیے یوگی ادتیہ ناتھ پر ہر جانب سے نکتہ چینی ہورہی ہے۔ حالیہ دنوں میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کے بیشتر واقعات یوپی میں پیش آئے ہیں۔ ریاست میں کورونا وائرس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہورہا، معیشت تباہ ہوچکی ہے اور بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔
ایسے ماحول میں ہندو قوم پرست بی جے پی کی حکومت اپنے حامیوں کی تسلی کے لیے اس طرح کے اعلانات کر رہی ہے تاکہ دائیں بازو کا حامی میڈیا ان تمام مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے فرقہ پرستی پر مبنی تاریخی بحث میں عوام کو الجھائے رکھے۔