1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی سیاست کے فیصلہ کن دن

14 دسمبر 2023

پاکستان آج کل اپنی سیاسی تاریخ کے ایک اہم موڑ سے گزر رہا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے اگلے چند دن بہت اہمیت کے حامل ہیں اور صورتحال کے واضح ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

https://p.dw.com/p/4a9mt
تصویر: PPI/ZUMAPRESS/picture alliance

پاکستان میں چند ہفتوں بعد الیکشن ہونے جا رہے ہیں لیکن ملک بھر میں حلقہ جاتی سطح پر کہیں بھی الیکشن کی فضا نہیں بن پائی ہے۔ الیکشن کے التوا کے لیے متعدد درخواستیں انصاف کے ایوانوں میں دائر کر دی گئی ہیں.

یہ دن اہم کیوں ہیں؟

پاکستان میں انتخابی شیڈول کے اعلان، عمران خان کے کیسز، پی ٹی آئی کے پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کے فیصلے، گرفتار لیڈروں کی ضمانتوں پر رہائی اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگز آفیسر کی تعیناتیوں سمیت کئی اہم فیصلے آنے والے دنوں میں متوقع ہیں۔

Bildkombo Pakistan | Armeechef Syed Asim Munir Ahmed Shah und Ex-Premier Nawaz Sharif
نواز شریف یہ بھی بتانا چاہ رہے تھے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے نہیں ہیں، خالد فاروقیتصویر: AP Photo/picture alliance

قبولیت اور مقبولیت

تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بات اب کوئی راز نہیں کہ پاکستان کی سیاست میں ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کا بھی ایک کردار ہے، ''ملک کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے کسی بڑے فیصلے میں سعودی عرب، امریکہ، چین، برطانیہ اور قطر جیسے ملکوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

سلمان عابد کے بقول، ''انتخابی میدان میں دو ہی بڑے پہلوان تھے۔ ان میں سے ایک عمران خان تھے، جن کو رنگ سے باہر کر دیا گیا ہے اب اکیلے نواز شریف ہی میدان میں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگلے چند روز میں یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ الیکشن کیسا ہو گا، ''لیول پلینگ فیلڈ کیسی ہو گی، پی ٹی آئی کو کتنی سپیس ملنی ہے، اس کو انتخابات میں کتنا حصہ لینے دینا ہے۔‘‘

خاموشی سے انتخابات

سلمان عابد کے بقول ایک ایسے وقت میں جب پاکستان تحریک انصاف کے لیڈرز گرفتار یا روپوش ہیں، ان کو انتخابی نشان اور پارٹی الیکشن کے امور میں الجھایا جا رہا ہے، انہیں انتخابی جلسے تک کرنے کی اجازت نہیں ہے، ''اس صورتحال میں لگتا یہی ہے کہ پاکستان میں کسی بڑی انتخابی مہم کے بغیر خاموشی کے ساتھ الیکشن  کرائے جائیں گے تاکہ زیادہ ووٹرز باہر ہی نہ نکلیں اور پی ٹی آئی کو نقصان پہنچا کر مرضی کے نتائج حاصل کیے جا سکیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں سلمان عابد نے بتایا کہ انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک ''انتخابی بندوبست‘‘ فائنل نہیں ہو پا رہا، ''جن کے پاس مقبولیت ہے ان کو قبولیت حاصل نہیں جن کو قبولیت حاصل ہے ان کے پاس مقبولیت نہیں۔‘‘

دفاعی تجزیہ نگار فاروق حمید کا خیال ہے کہ عنقریب سائفر اور توشہ خانہ کیس پر فیصلے آنے کو ہیں۔ پی ٹی آئی کے انتخابی نشان اور پارٹی الیکشن پر بھی فیصلہ آنے والا ہے۔ قانون کے مطابق الیکشن سے چون دن پہلے الیکشن شیڈول جاری ہو جانا چاہیے، ''اگر اگلے چند دنوں میں الیکشن شیڈول جاری نہ ہو سکا تو پھر الیکشن کے حوالے سے بے یقینی میں بہت اضافہ ہو جائے گاــ‘‘

Pakistan Lahore | Rückkehr Ex-Präsident Nawaz Sharif aus dem Exil
بڑی انتخابی مہم کے بغیر خاموشی کے ساتھ الیکشن  کرائے جائیں گے، سلمان عابدتصویر: Tanvir Shahzad/DW

نواز شریف کا خطاب

جمعرات کے روز پاکستان مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے سارے مقدمات سے اپنی بریت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اصل خوشی تب ہو گی، جب ملک ترقی کرے گا، بے روزگاری ختم ہو گی اور مہنگائی میں کمی آئے گی۔ انتخابی اپنی تقریر میں میاں نواز شریف نے ماضی کی اپنی کامیابیاں گنوائیں، اپنی قربانیاں بیان کیں، عوامی مشکلات کا ذکر کیا اور عمران خان اور اس کو لانے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ نواز شریف ایک ایسے وقت میں عوام سے مخاطب ہوئے، جب انہیں اسٹیبلشمنٹ کا پسندیدہ قرار دیا جا رہا ہے اور ان کی مقدمات سے بریت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی خالد فاروقی نے بتایا کہ نواز شریف نے اپنی تقریر میں اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی کہ عدلیہ ان کو غیر معمولی رعایت نہیں دے رہی بلکہ ان پر دائر کیے گئے مقدمات ہی جعلی تھے، ''وہ یہ بھی بتانا چاہ رہے تھے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے نہیں ہیں۔‘‘ خالد فاروقی کے بقول لیڈروں پر لگے این آر او جیسے داغ آسانی سے نہیں دھلتے، ''ان کی بات ان کے مخالف نہیں مانیں گے یہ ایک انتخابی نشری تقریر تھی جو ان کے اپنے کارکنوں کے لیے تھی یا جس سے غیر جانبدار ووٹرز کی قلیل تعداد کچھ اثر لے سکتی ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں فاروقی صاحب نے بتایا کہ گجرات کے نون لیگ کے ایک کمزور جلسے کے بعد اب انہوں نے ٹی وی پر قوم سے مخاطب ہونا مناسب سمجھا ہے تاکہ انہیں صحافیوں کے سوالات کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔

جنرل عاصم منیر کا دورہ امریکہ

ان حالات میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر امریکہ کے اپنے پہلے اور غیر معمولی دورے پر ہیں۔ان کے اس دورے کو ملک کے آئندہ کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار فاروق حمید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ جی ایچ کیو اور پینٹاگون میں بھی درینہ تعلقات ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان کے آرمی چیف کے امریکہ کے اس دورے میں افغان مہاجرین کی وطل واپسی، فوجی اور اقتصادی باہمی تعاون اور دہشت گردی کی صورتحال کے علاوہ ملک کے سیاسی معاملات پر بھی بات چیت ہو گی، ''عالمی امدادی ادارے اور مغربی ممالک ہمیشہ سے پاکستان میں جمہوری عمل کے حامی رہے ہیں اور پاکستان کو اس بات کا ادراک ہے کہ انتخابات میں التوا سے اقتصادی بحران میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ڈونرز سے امداد ملنے میں مشکلات حائل ہو سکتی ہیں۔‘‘

انتخابات کو ملتوی کرنے کی باتیں

ابھی حال ہی میں کراچی میں آرمی چیف سے ملنے والے ملک کے نامور تاجروں نے بھی مبینہ طور پر نگران سیٹ اپ جاری رکھنے کی بات کی ہے۔ علمائے کرام کے ایک گروپ کی طرف سے بھی ایسی ہی آوازیں سنائی دی جا رہی ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن سمیت ملک کے متعدد نامور سیاست دان بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور شدید موسمی حالات کی وجہ سے الیکشن میں کچھ التوا کو قابل اعتراض نہیں سمجھ رہے۔

نواز شریف کی واپسی، پاکستان کے لیے خوشحالی کا ایک نیا دور؟