زندگی کے پیچ و خم کچھ اتنے پیچیدگی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں کہ پیچیدگیاں نمٹاتے نمٹاتے ہماری ذات کے ریزے بری طرح بکھر جاتے ہیں۔ وقت کا براق سرپٹ دوڑتا رہتا ہے اور پھر جب اپنی ذات کو ڈھونڈنے نکلو تو ندامت کے سوا کچھ ہاتھ آتا دکھتا ہی نہیں۔ وقت اور زندگی دونوں کی قدر میں نے دیر میں جانی لیکن میں اس امر میں اپنے رب کی بہت شکر ہوں کہ میں نے اپنے آپ کو جلدی سنبھال لیا اور یوں تھوڑا وقت میرے ہاتھ میں بچ گیا۔
جب سے ہوش سنبھالا پڑھا لکھا۔ لکھت پڑھت کے بعد جو وقت بچا وہ چولہے چوکے میں جھونک دیا۔ اپنی ذات کے لیے کبھی اس طرح وقت نہ مل سکا، جس طرح سوچا تھا۔ جب پیسے ہوتے تو وقت نہ ہوتا۔ جب وقت ہوتا تو پیسے ندارد۔ اور جب وقت اور پیسے دونوں جمع ہوجاتے تو ہمت اور طاقت ہی جواب دے جاتی۔ قصہ مختصر میرے پاس اپنے لیے شاید کچھ بھی نہ تھا۔ زندگی کی صعوبتوں نے اتنا وقت ہی نہیں دیا کہ پیسہ، ہمت اور وقت کو ایک ساتھ یکجا کر سکوں۔ پھر ایک دور ایسا آیا کہ میں اپنے آپ سے خفا رہنے لگی۔ خفگی بھی اسی بات کہ تھی کہ اب اپنا آپ منہ کھول کر وقت مانگ رہا تھا لیکن میں اسے مسلسل رد کیے جا رہی تھی۔ بالآخر اس خفگی نے شدید غصے کا روپ دھار لیا۔ اب مجھے اپنے لیے کچھ کرنا ہی تھا۔ لیکن کرنا کیا تھا اس راز کو جاننے کے لیے بھی بڑے کٹھن سوچ و سوال سے اپنے آپ کو گزارنا تھا۔
انسان واقعی اپنے اندر ایک کائنات کو اکھٹا کیے بیٹھا رہتا ہے اور وقت پڑنے پر جب میں نے اس کائنات کے ریزے ٹٹولنے شروع کیے تو اس نتیجے پر پہنچی کہ خود کو زندہ رکھنے کے لیے اپنے آپ کو خوش رکھنا سب سے زیادہ اہم ہے۔ اپنی خوشی کی تلاش میں دنیا کی خاک چھاننے کے بجائے تھوڑا وقت اور اہمیت اپنے آپ کو دینی ضروری ہے۔
میں نے زیادہ وقت ضائع کیے بغیراپنے لیے گوشہ فرار ڈھونڈنے کی ٹھانی۔ اس کے لیے مجھے بہت دور نہیں جانا پڑا۔ مجھے فنِ تیراکی سے بچپن سے ہی بہت شغف تھا لیکن بہت ساری وجوہات کی بنا پر میں اس شوق کو پروان نہیں چڑھا سکی۔ اب یہ میرا فیصلہ تھا کہ مجھے تیرنا سیکھنا ہے۔
اسی دوران میری ملاقات رومہ سے ہوئی جو ایک نجی ادارے میں تیراکی سکھانے پر معمور تھیں۔ انہوں نے مجھے ہمت دلائی کہ میں عمر کے اس حصے میں بھی تیرنا سیکھ سکتی ہوں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ میں نے رومہ کی بات کو پلے سے باندھا اور بالآخر تیراکی سیکھنے کی ہمت کر ہی لی۔ مجھے آج بھی وہ دن اچھی طرح یا د ہے جب پہلی دفعہ تیراکی کی نیت سے حوض میں اتری تھی۔ ڈھائی فٹ گہرے پانی میں میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور ڈر کے مارے آنکھیں سختی سے بھینچی ہوئی تھیں۔ میں نے مضبوطی سے رومہ کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور خوف کے مارے منہ سے چیخیں نکل رہی تھیں۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ یہیں ڈوب کر مر جاؤں گی۔ میں نے مہینوں کڑی کوششیں کر کے اپنے آپ کو اس قابل بنایا کہ پانی میں سانس روک سکوں۔ اس مشغلے کو اپنانے کے بعد مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ بغیر ہمت، لگن اور انتھک محنت کے تیراکی سیکھنا نہ ممکن ہے۔ دل نے تو بہت شور مچایا کہ اس مشغلے کو فوری خیرباد کہہ دوں لیکن دماغ مسلسل کچوکے دیتا رہا کہ کچھ بھی ہو اس کو چھوڑنا نہیں۔ بالآخر دل اور دماغ کی اس جنگ میں جیت دماغ کی ہوئی اور میں نے ٹھان لی کہ جس طرح بھی ہو سکے، میں تیراکی سیکھنے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھوں گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کو سب سے بڑی جنگ اپنے آپ سے ہی لڑنی پڑتی ہے۔ سو میں نے لڑی۔ ڈوبنے کا خوف، دم گھٹنے کے وسوسے اور مر جانے کا ڈر ان سب سے بڑی کٹھن جنگ لڑی اور شاید ابھی تک لڑ رہی ہوں۔ میں نے اپنے آپ کو مکمل وقت دیا کہ یہ تمام کام میں اپنے طریقے سے سیکھوں۔ طفل ِ شیر خوار کی طرح چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے۔ کئی بار منہ کے بل گری لیکن گر کے اٹھنا ہی اصل جیت ثابت ہوئی۔
اس تجربے نے ایک اور بات مجھے سکھائی کہ اس معاشرے میں جہاں بہت خوبیاں ہیں وہاں اس کی سب سے بڑی خامی اس کی فرسودگی ہے۔ تیراکی سیکھنے کے ضمن میں نے لوگوں کی بہت نازیبا اور تلخ بیانیاں سہیں۔ بعض اوقات ان تلخ باتوں سے آنکھوں سے آنسو نکل جاتے۔ لیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔ ''کیا کرو گی یہ سب سیکھ کر؟ اس سے بہتر ہے کہ اپنی گھر گرستی پر دھیان دوـ یہ زیادہ ضروری ہے۔‘‘ اب میں ایسے جملوں سے گھبراتی نہیں بلکہ ادب کو ملحوظِ خاطر لا کر سیدھا جواب دیتی ہوں۔ ''بالکل بجا فرمایا آپ نے۔ گھر گرستی واقعی بہت ضروری ہے۔ لیکن جہاں یہ گھر گرستی آپ سمیت کسی ناگہانی سیلاب میں ڈوبی تو میں وہاں سے تیر کر نکل جاؤں گی۔‘‘
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔