ملا برادر کی رہائی پر پاک افغان مذاکرات
11 اگست 2012ملا برادر کو 2010ء میں پاکستان کے بندرگاہی شہر کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا اور اُس پر قیام امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ملا برادر کو طالبان ملیشیا کا دوسرا اہم ترین کمانڈر خیال کیا جاتا ہے۔
افغان حکومت اور اقوام متحدہ کے سابق مندوب برائے افغانستان نے یہ کہا تھا کہ ملا برادر کی حراست کی وجہ سے باغیوں کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں پر منفی اثر پڑا۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان سے جب ملا برادر تک رسائی اور رہائی کے افغان مطالبات پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو اُنہوں نے صحافیوں کو بتایا:’’دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کے معاملے پر بات چیت چل رہی ہے۔‘‘
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کسی قیدی کا نام لے کر ذکر نہیں کیا اور نہ ہی مزید کوئی تفصیلات بتائیں تاہم صحافیوں کے استفسار پر اُن کا کہنا تھا کہ ملا برادر بدستور پاکستان میں زیر حراست ہے۔
پاکستان کے ایک سینئر سکیورٹی اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی دونوں ملک ملا برادر کی رہائی کے سلسلے میں کسی بھی سمجھوتے پر نہیں پہنچے۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس پاکستانی اہلکار کا کہنا تھا:’’یہ تو ممکن ہے کہ پاکستان افغان حکام کو ملا برادر سے ملنے کی اجازت دے دے تاہم ابھی تک اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ سمجھوتہ نہیں ہوا ہے۔‘‘
ملا عبدالغنی برادر امریکی قیادت میں 2001ء میں افغانستان پر ہونے والے اُس حملے کے بعد سے گرفتار ہونے والی طالبان کی اہم ترین شخصیت ہیں، جس کے نتیجے میں کابل میں اس افغان ملیشیا کا اقتدار ختم کر دیا گیا تھا۔
ملا برادر کو طالبان کے بچ نکلنے والے قائد ملا محمد عمر کا قریبی اور قابل اعتماد ساتھی تصور کیا جاتا ہے۔ برادر کی گرفتاری کے فوراً بعد امریکی محکمہ دفاع نے بتایا تھا کہ طالبان کے دو دیگر عہدیدار بھی پکڑے گئے ہیں اور اُنہیں بھی غالباً پاکستان ہی میں حراست میں لیا گیا تھا۔
مارچ 2010ء میں Kai Eide نے، جو تب کچھ ہی عرصہ پہلے افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے مندوب کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تھے، کہا تھا کہ پاکستان میں طالبان کے اہم عہدیدار کی گرفتاری کے نتیجے میں باغیوں اور اقوام متحدہ کے درمیان جاری خفیہ مذاکرات کا سلسلہ بند ہو گیا تھا۔
افغان صدر حامد کرزئی بار بار طالبان کو اپنی حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کی دعوت دے چکے ہیں اور پاکستان سے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں دس سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے سلسلے میں کابل حکومت کے ساتھ تعاون کرے۔
پاکستان بھی یہ یقین دہانی کروا چکا ہے کہ وہ افغانوں کی سربراہی میں عمل میں آنے والے کسی بھی امن عمل کی تائید و حمایت کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرے گا تاہم اے ایف پی کے مطابق طالبان کے اس سابق حلیف ملک کے اخلاص کو افغانستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکا میں بڑی حد تک شک و شبے کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
(aa/ng(afp