ملا منصور پاکستان میں ڈرون حملے میں مارا گیا، امریکی دعویٰ
22 مئی 2016امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے اتوار بائیس مئی کی صبح ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق افغان طالبان کے رہنما کو ہفتے کے روز نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا اور یہ ایک ایسا ’اہم فضائی حملہ‘ تھا، جیسا پاکستان میں امریکا کی طرف سے ’بہت کم‘ دیکھنے میں آتا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے پریس سیکرٹری پیٹر کُک کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس ڈرون حملے کا ہدف افغان طالبان تحریک کا سربراہ ملا اختر منصور تھا، جو کافی زیادہ امکان ہے کہ اس فضائی حملے میں مارا گیا ہے۔ پیٹر کُک کے مطابق، ’’امریکی عسکری ماہرین ابھی تک یہ حتمی اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا ملا منصور واقعی مارا گیا ہے۔‘‘
اسی دوران واشنگٹن ہی میں ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے اپنا نام خفیہ رکھے جانے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ اس ڈرون حملے کی اجازت ذاتی طور پر امریکی صدر باراک اوباما نے دی تھی۔ ’’اس حملے میں، جو عالمی وقت کے مطابق ہفتے کی صبح دس بجے کیا گیا، افغان سرحد کے قریب پاکستانی علاقے میں احمد وال نامی قصبے سے جنوب مغرب کی طرف دو ایسے افراد کو نشانہ بنایا گیا جو ایک گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔‘‘
پینٹاگون کے ذرائع کے مطابق اس ڈرون حملے میں ملا منصور اور اس کے ساتھ سفر کرنے والا ایک اور عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔ اے ایف پی نے پینٹاگون کے حکام کے بیانات کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ اس حملے میں کسی تیسرے فرد کی ہلاکت تقریباﹰ خارج از امکان ہے اور یہ کارروائی امریکی اسپیشل آپریشنز فورسز کی طرف سے کنٹرول کیے جانے والے متعدد فوجی ڈرون طیاروں کے ساتھ بیک وقت کی گئی۔
اے ایف پی کے مطابق اس بیان کا دوسرے لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ ملا اختر منصور کو ہدف بنا کر ڈرون طیاروں سے کئی میزائل فائر کیے گئے۔ دوسری طرف یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ماضی میں افغان طالبان کے اکثر رہنماؤں کے بارے میں ایسی خبریں غلط بھی ثابت ہوئی ہیں کہ انہیں فضائی حملوں میں ممکنہ طور پر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ خود ملا منصور کے بارے میں گزشتہ برس دسمبر میں بھی یہ خبر آئی تھی کہ اسے ایک فضائی کارروائی میں ہلاک کر دیا گیا تھا، جو بعد میں غلط ثابت ہوئی تھی۔
دریں اثنا وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر اہلکار کی طرف سے یہ بھی کہا گہا ہے کہ اس حملے میں ملا منصور کو نشانہ بنانے کے کچھ ہی دیر بعد امریکی حکام نے افغان اور پاکستانی حکام کو باقاعدہ طور پر یہ اطلاع بھی دے دی تھی کہ واشنگٹن نے ایک فضائی کارروائی میں ملا منصور کو نشانہ بنایا ہے۔
اے ایف پی نے مزید لکھا ہے کہ افغانستان میں کابل حکومت کے ساتھ طالبان کے براہ راست امن مذاکرات کے حوالے سے، جن کے آغاز کے لیے ایک چار ملکی رابطہ گروپ بھی کوششیں کر رہا ہے، ملا اختر منصور کی طرف سے واضح طور پر مخالفت کی جا رہی تھی۔ ملا منصور کو افغان طالبان نے جولائی 2015 میں اپنے سابق رہنما ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق ہو جانے کے بعد اپنا نیا لیڈر منتخب کیا تھا۔
ملا منصور کی طرف سے طالبان کی قیادت سنبھالے جانے کے بعد سے ان عسکریت پسندوں کے افغانستان میں ملکی اور اتحادی فوجی اہلکاروں اور تنصیبات پر حملوں میں واضح طور پر شدت آ گئی تھی۔