ملائیشیا میں سنسر شپ کا نشانہ بننے والی نو حیرت انگیز فلمیں
ڈزنی نے ملائیشیا کے حکام کو اپنی فلم ’بیوٹی اینڈ دی بیسٹ‘ کے نئے ورژن کو سنسر کرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے وہاں اپنی فلم کی نمائش ملتوی کر دی ہے۔ ملائیشیا میں سنسر شپ کا نشانہ بننے والی یہ پہلی فلم نہیں ہے۔
شنڈلرز لِسٹ (1993ء)
ملائیشیا کے سنسر حکام کے مطابق یہ فلم ’محض ایک مخصوص نسل کے افراد کے استحقاق اور اَقدار‘ کی عکاس تھی اور یہ ’ایک طرح کا پراپیگنڈا تھی، جس کا مقصد ایک نسل کے افراد کے لیے ہمدردی اور دوسری نسل کے افراد کی ساکھ خواب کرنا تھی‘۔ بعد میں یہ پابندی ہٹا دی گئی اور متعدد پُر تشدد اور برہنہ مناظر کاٹ کر محض ایک ڈی وی ڈی ورژن کی اجازت دی گئی، جس پر فلم کے ڈائریکٹر اسٹیون اسپیل برگ خاصے برہم اور آزردہ تھے۔
بیب (1995ء)
خنزیر اس فلم کا مرکزی کردار تھا جبکہ ملائیشیا میں اس جانور کا ذکر ایک ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں ملائیشیا کے سنسر حکام نے اس بنیاد پر فلم پر پابندی لگا دی کہ اس سے وہاں کی اکثریتی مسلم آبادی کے جذبات مجروح ہو سکتے ہیں۔ پھر لفظ ’بیب‘ خنزیر کے لیے استعمال ہونے والے ملائی زبان کے لفظ ’بابی‘ سے بھی ملتا جُلتا تھا۔ بعد میں اس فلم کے بھی ڈی وی ڈی ورژن کی اجازت دے دی گئی تھی۔
ڈیئر ڈیول (2003ء)
ملائیشیا کے سنسر حکام نے نہ صرف اس فلم کو حد سے زیادہ متشدد قرار دیا بلکہ حکومتی نمائندوں کی جانب سے یہ بھی سننے میں آیا کہ نوجوان کسی ’ایسے شخص کو اپنا آئیڈیل بنا سکتے ہیں، جس کا نام سننے میں شیطان کی طرح لگتا ہے‘۔
زُو لینڈر (2001ء)
ملائیشین فلم سنسر بورڈ LPF نے اس فلم کو نمائش کے لیے ’قطعی طور پر غیر موزوں‘ قرار دے دیا تھا کیونکہ اس میں دکھایا گیا تھا کہ ملائیشیا ایک پسماندہ ملک ہے، جہاں کے کارخانوں میں لوگوں کا استحصال ہوتا ہے اور انتہائی کم معاوضے پر کام کروایا جاتا ہے۔ بورڈ نے اس بات کو بھی غیر مناسب جانا کہ فلم کے ایک کردار کو، جسے اداکار بَین اسٹلر نے نبھایا تھا، ملائیشیا کے وزیر اعظم کو قتل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
برُوس آلمائٹی (2003ء)
اس فلم میں اداکار مورگن فری مین نے خدا کا کردار ادا کیا تھا۔ اسلام میں اس کی ممانعت ہے اور اس فلم پر کافی احتجاج بھی ہوا تھا۔ بعد میں اس فلم کے ڈی وی ڈی ورژن کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس فلم کا اگلا حصہ 2007ء میں ’ایوان آلمائٹی‘ کے نام سے سامنے آیا تو اُس پر بھی تنازعہ اُٹھ کھڑا ہوا کیونکہ اس میں پیغمبر حضرتِ نوح اور اُن کے دور میں آنے والے سیلاب کا مزاحیہ انداز میں ذکر کیا گیا تھا۔
دی پیشن آف دی کرائسٹ (2004ء)
اس فلم کو ابتدا میں ’مذہبی حوالے سے حساس‘ کہہ کر اس پر پابندی لگائی گئی تھی۔ ایک جواز یہ بھی بتایا گیا کہ قرآن میں جن پیغمبروں کا ذکر کیا گیا ہے، اُن میں سے چند ایک کو اس فلم میں دکھایا گیا ہے۔ بعد میں ڈی وی ڈی ورژن کی اجازت تو دی گئی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ یہ صرف ’مسیحیوں کے لیے اور صرف گھر پر بیٹھ کر دیکھنے کے لیے‘ ہے۔
دی وولف آف وال اسٹریٹ (2013ء)
یہ بات باعث حیرت نہیں کہ اس فلم پر جنسی مناظر، منشیات اور F سے شروع ہونے والے ایک انگریزی لفظ کے 506 مرتبہ استعمال کے باعث پابندی لگائی گئی۔ اہم بات یہ تھی کہ اس کی فلم ساز ایک امریکی کمپنی ’ریڈ گرینائٹ پکچرز‘ تھی، جس کی بنیاد رکھنے والوں میں ملائیشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق کے سوتیلے بیٹے رضا عزیز تھے، جو اس کمپنی کے چیئرمین بھی تھے۔ اب اس کمپنی کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے تحت تحقیقات جاری ہیں۔
نوح (2014ء)
کہا جاتا ہے کہ ملائیشیا کے فلم سنسر بورڈ ایل پی ایف کے سربراہ نے اس فلم کے حوالے سے کہا تھا:’’کسی کو بھی پیغمبر کے کردار میں پیش کرنا غیر اسلامی ہے۔ اگر پیغمبر کی تصویر بنانا ایک مسئلہ ہے تو پھر فلم مختلف کیسے ہو گئی؟ بلاشبہ یہ ممنوع ہے، اس کی اسلام میں ممانعت ہے۔‘‘ 1998ء میں اسی طرح کی وجوہات کی بناء پر ’ڈریم ورکس‘ کی پہلی اینی میٹڈ میوزیکل فلم ’دی پرنس آف ایجپٹ‘ پر پابندی لگائی گئی تھی۔
دی ڈینش گرل (2015ء)
اس فلم کی نمائش پر پابندی کے لیے ملائشیا کے سنسر حکام نے کوئی باقاعدہ وجہ نہیں بتائی تھی۔ اس فلم میں ایک مرد خود کو ایک عورت کے روپ میں پیش کرتے کرتے بالآخر تبدیلیٴ جنس کا آپریشن کروا لیتا ہے۔ اسے ’بد اخلاقی کو ترویج دینے والی‘ فلم قرار دیتے ہوئے اس پر کافی احتجاج بھی کیا گیا۔ اس فلم کی نمائش قطر، عمان، بحرین، اُردن، کویت اور متحدہ عرب امارات میں بھی ممنوع قرار دے دی گئی تھی۔