یورپی پلاسٹک ویسٹ کا ’کوڑا دان‘ ملائیشیا ہی کیوں؟
31 اکتوبر 2024ملائیشیا یورپی یونین سے پلاسٹک ویسٹدرآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ حالانکہ حکومت نے ملک کو عالمی ڈمپنگ گراؤنڈ یا 'کوڑا دان‘ بننے سے روکنے کے وعدے کیے، لیکن ابھی تک پر عمل نہیں کیا جا سکا۔
یورو اسٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2022 کے مقابلے میں گزشتہ سال یورپی یونین سے درآمد کیے جانے والے پلاسٹک ویسٹ کی مقدار میں 35 فیصد اضافہ ہوا۔
یورپی یونین سے گزشتہ برس 8.5 ملین ٹن کاغذ، پلاسٹک اور شیشے کا کچرا برآمد کیا گیا جس میں سے پانچواں حصہ ملائیشیا کے کباڑ خانوں تک پہنچا۔
انڈونیشیا اور ویتنام بھی یورپی کچرا برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔
یورپی کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ کا تقریباً 90 فیصد ویسٹ مقامی طور پر ٹریٹ کیا جاتا ہے تاہم سن 2004 سے اب تک کچرے کی برآمد میں بھی 72 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یورپی یونین کی 'نقصان دہ اور غیر اخلاقی‘ پالیسی
یورپی یونین نے سن 2026 کے وسط سے ملائیشیا سمیت ان تمام ممالک میں پلاسٹک ویسٹ برآمد نہ کرنے کا اعلان کیا ہے جو اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) کے رکن نہیں ہیں۔
اس اقدام کا مقصد پلاسٹک یا کیمیکل جیسے مواد کو ان ممالک میں بھیجنے سے روکنا ہے جو انہیں مناسب طریقے سے ٹریٹ نہیں کر سکتے۔
جان ڈیل پیشے سے انجینیئر ہیں اور 'دی لاسٹ بیچ کلین اپ‘ نامی گروپ کی بانی بھی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یورپی یونین کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندی اس بات کا اعتراف ہے کہ پلاسٹک کچرے کی برآمد 'نقصان دہ اور غیر اخلاقی‘ ہے۔
تاہم انہوں نے یورپی یونین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ''اب وہ ایشیا میں پلاسٹک ویسٹ کی مقدار میں بڑے پیمانے پر اضافہ کر رہے ہیں۔‘‘
ڈیل کا کہنا تھا، ''یورپی یونین ایک جانب دنیا کو ماحول دوست اقدامات کے بارے میں لیکچر دیتی ہے تو دوسری جانب یکبارگی استعمال والی پلاسٹک مصنوعات پر پابندی عائد کرنے یا پلاسٹک ویسٹ کو اپنی سرزمین پر جلا کر اس سے خارج ہونے والے زہریلی گیسوں کو شمار کرنے کی بجائے اسے برآمد کرتی ہے جو کہ ری سائیکل کرنے کا دکھاوا کرنے کی واضح منافقانہ چال ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کی رواں برس شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سالانہ ایک سو ملین ٹن سے زیادہ دھات، کاغذ اور پلاسٹک پر مبنی کچرا درآمد کرتے ہیں۔ سن 2017 تا 2021 کے دوران ایسے کچرے کی مالیت 47 بلین یورو تھی۔
چین نے جب سن 2018 سے زیادہ پلاسٹک ویسٹ درآمد کرنے پر پابندی عائد کی تو ملائیشیا سمیت دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں ان کی برآمد بڑھ گئی۔
ملائیشیا کی حکومت کئی برسوں سے مزید کچرا برآمد نہ کرنے کے اعلانات تو کر رہی ہے لیکن کچھ پڑوسی ممالک کے برعکس اس نے اب تک امپورٹ پر پابندی عائد نہیں کی۔
گرین پیس ملیشیا کی رکن ہیما سولاکشنا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ملائیشیا کی حکومت معاشی وجوہات اور مقامی ری سائیکلنگ انڈسٹری کی مانگ کی وجہ سے پلاسٹک ویسٹ درآمد کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔‘‘
تاہم ایسا زیادہ تر کچرا ری سائیکل نہیں کیا جا سکتا اور اسے یا تو پھینک دیا جاتا ہے یا جلا دیا جاتا ہے۔ دونوں طریقوں سے یہ کچرا خطرناک آلودگی کا سبب بنتا ہے۔
ماحولیات پر منفی اثرات
ماحولیات کے ماہرین پائیداری اور ری سائیکلنگ پر مبنی 'گردشی معیشت کے فوائد‘ پر منقسم دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے حامی ری سائیکلنگ کو کچرے اور وسائل کی کھپت کم کرنے کی کلید کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ایک غیر منافع بخش تنظیم 'سرکولیٹ انیشی ایٹیو‘ کا اندازہ ہے کہ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں پلاسٹک ویسٹ کی مناسب ری سائیکلنگ سے 2030 تک تقریبا 229 ملین میٹرک ٹن زہریلی گیسوں کے اخراج کو روکا جا سکتا ہے، جو کوئلے سے چلنے والے 61 پاور پلانٹس سے ہونے پیدا ہونے والی آلودگی کے برابر ہے۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ صرف ری سائیکلنگ ناکافی ہے، کیونکہ بہت سا کچرا اب بھی یا تو پھینک دیا جاتا ہے جا یا جلایا جاتا ہے جس سے زہریلی گیسوں کا زیادہ اخراج ہوتا ہے۔
مختلف اندازوں کے مطابق سن 2020 میں ملائیشیا کی ری سائیکلنگ کی شرح صرف 30 فیصد تھی جو ہمسایہ ملک سنگاپور سے نصف ہے۔
اگرچہ یورپی یونین نے 2026 تک کچھ طرح کے ویسٹ کی برآمد پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پلاسٹک کی برآمدات کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔
سڈنی یونیورسٹی کے لیکچرر شیوری شاکوٹو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر کچھ شرائط پوری کی جائیں تو پلاسٹک اب بھی برآمد کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکسٹائل سمیت چند دیگر اقسام کے کچرے کی برآمد پر پابندی نہیں ہو گی۔
قواعد و ضوابط کا نفاذ کیسے ہو گا؟
شاکوٹو کے مطابق غیر زہریلے کچرے کی تجارت روکنے اور منافع بخش غیر قانونی تجارت کے خاتمے کے لیے ملائیشیا اور یورپی یونین کو اپنے ضوابط سخت بنانے کی ضرورت ہے۔
یورپی کمیشن کا اندازہ ہے کہ یورپی یونین کچرے کی برآمد کا 15 تا 30 فیصد کاروبار غیر قانونی ہوتا ہے۔
یورپی کمیشن نے ایک بیان میں کہا، ''ایسی شپمنٹ جسے ٹریک نہیں کیا جا سکتا اس کے بارے میں یہ امکان زیادہ ہوتا ہے کہ اسے مناسب طریقے سے ری سائیکل اور ٹھکانے نہیں لگایا جائے گا۔ یوں اس ویسٹ کو دوبارہ استعمال کرنے کا موقع بھی ضائع ہو جاتا ہے۔‘‘
یورپی یونین نے ایسی غیر قانونی اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے تھائی لینڈ، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے ساتھ مذاکرات شروع کر رکھے ہیں۔
لیکن درآمد کرنے والے ممالک میں بھی موجودہ قوانین کے سخت نفاذ کی ضرورت ہے، کیوں کہ نئے یورپی قوانین کے نفاذ کے بعد غیر قانونی تجارت بڑھنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔
ڈیوڈ ہوٹ (ش ح/ک م)