ملیریا کا مکمل خاتمہ’ آسان نہیں‘
30 اکتوبر 2010Lancet میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیق کے مطابق دنیا کے کئی ممالک میں فی الحال ملیریا جیسی بیماری کو مکمل طور پر ختم کرنا ناممکن ہے، اس لئے اس حوالے سے عالمی حکمت عملی میں تبدیلی لائی جائے۔
تحقیق کے مطابق بالخصوص کئی افریقی ممالک ایسے ہیں جہاں اس بیماری کے خاتمے کے لئے ایک بڑی رقم خرچ کی جا رہی ہے تاہم اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے ہیں۔ محققین کے مطابق اس طرح اس بیماری سے نمٹنے کے لئے نہ صرف مالی وسائل ضائع ہو رہے ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی عزم میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔
اس تحقیقی رپورٹ میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ وہ اس حوالے سے کوئی بہتر حکمت عملی بنانے میں ابھی تک ناکام ہے۔ تاہم دوسری طرف اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اقوام متحدہ کے اس ادارے نے کہا ہے کہ ملیریا کا مکمل خاتمہ عالمی ادارے کا ایک اہم مقصد ہے۔
اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر اولیورسابوٹ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ ملیریا کے مکمل خاتمے کے لئے اس حوالے سے بنائی گئی حکمت عملی میں ایک بڑی تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا موجودہ وسائل اور حالات کے تناظر میں عالمی اداروں کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانا انتہائی ضروری ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے اعداد وشمار کے مطابق تین اعشاریہ تین بلین یعنی دنیا کی نصف آبادی ملیریا کے خطرے میں مبتلا ہے جبکہ مچھروں سے پھیلنے والی اس بیماری کے نتیجے میں سالانہ 250 ملین افراد لقمہ اجل بنتے ہیں۔
Lancet میڈیکل جرنل کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر رچرڈ ہورٹن کے مطابق ملیریا پر کنٹرول پانے کی حکمت عملی سےزیادہ جانیں بچائی جا سکتی ہیں،’ اگر اس بیماری کو کنٹرول کرنے کا موجودہ نظام سن2015ء تک برقرار رہتا ہے تو صرف سب سہارا افریقی ممالک میں ہی 1.14 ملین بچوں کی زندگی محفوظ ہو سکتی ہے۔ ملیریا کے مکمل خاتمے کے خواہش میں، اس بیماری کو کنٹرول کرنے کا موجودہ نظام متاثر نہیں ہونا چاہئے۔‘ ان کے مطابق ملیریا کا مکمل خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا، جب تک اس کے لئے مؤثر ویکسین مکمل طورپر دستیاب نہیں ہوتی۔
خیال رہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں کے دوران دنیا کے بہت سے علاقوں میں ملیریا جیسی مہلک بیماری مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے تاہم ابھی بھی قریب ننانوے ممالک میں یہ بیماری موت کے سامان پیدا کر رہی ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شادی خان سیف