ملیریا کی دوا بے اثر: ’اس کے خلاف جنگ میں کامیابی دور ہے‘
23 اپریل 2015اقوام متحدہ کے صحت کے ادارے کے مطابق ملیریا کے خلاف اب تک سب سے زیادہ موثر سمجھی جانے والی دوا بے اثر ہوتی جا رہی ہے اور اس کے خلاف مزاحمت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ اس دوا کے خلاف پیدا ہونے والی مزاحمت اور ملیریا کی تشخیص اور اس کے علاج کے طریقہ کار میں پائی جانے والے نقائص مل کر اس بیماری کو مزید مہلک بنا رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے گلوبل ملیریا پروگرام کے رابطہ کار رچرڈ سیبُلسکس نے جینیوا میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، "مجموعی طور پر دنیا بھر میں ملیریا کے واقعات میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور دنیا کے اُن 106 ممالک میں جہاں ملیریا کی بیماری پھلتی رہی ہے 2000 ء سے 2003 ء کے درمیان ملیریا کے سبب ہونے والی اموات میں بھی 40 فیصد کمی آئی ہے۔ ان میں سے 13 ممالک میں مقامی سطح پر ملیریا کے سالانہ کیسس کی تعداد صفر تک پہنچ چُکی ہے جبکہ 4 ملکوں میں مقامی سطح پر پھیلنے والی بیماری ملیریا کے سال میں 10 کیسس کے اندراج کی اطلاع ہے تاہم اس موذی عارضے کے خلاف جنگ مبں کامیابی ہنوز دور نظر آ رہی ہے" ۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ 2013 ء میں ملیریا نے دنیا بھر میں 584,000 افراد کی جان لی ہے ان میں سے تین چوتھائی تعداد پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی تھی۔ اسی سال یعنی 2013 ء ہی میں ملیریا سے سب سے زیادہ متاثرہ خطے افریقہ میں ہر پانچ میں سے ایک بچے کو علاج میسر تھا۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں ملیریا کے سبب موت کے مُنہ میں جانے والے افراد کی کُل تعداد کا 90 فیصد افریقہ ہی میں پایا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ افریقہ میں 278 ملین انسان ایسے گھروں میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں نہایت کم قیمت ہونے کے باوجود جراثیم سے پاک ایک بھی مچھر دانی میسر نہیں۔ 2013 ء میں 319 ملین ایسے ٹیسٹس یا معائنے کیے گئے جن کی فی معائنہ قیمت 50 سینٹس بنتی ہے جبکہ اس سے پانچ سال قبل محض 46 ملین افراد کا یہ ٹیسٹ کیا گیا تھا۔ اس اہم پیش رفت کے باوجود افریقہ میں ہسپتالوں اور کلینکس تک پہنچنے والے ملیریا کے مریضوں میں سے محض 40 فیصد کا یہ ٹیسٹ کیا گیا۔
اس وقت طبی ماہرین اور محققین کو سب سے زیادہ تشویش ملیریا کی دوا ’Artemisinin‘ کے خلاف پیدا ہونے والی مزاحمت سے لاحق ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی یہ رپورٹ آئندہ ہفتے کے روز منعقد ہونے والے ’ ورلڈ ملیریا ڈے‘ کی مناسبت سے منظر عام پر لائی گئی ہے۔