ممتاز قادری کا سزائے موت کے خلاف اپیل نہ کرنے کا فیصلہ
1 اکتوبر 2011راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے جج پرویز علی شاہ نے انتہائی سخت سیکورٹی والی اڈیالہ جیل میں اس مقدمے کا فیصلہ سنایا۔ ہفتے کے روز سنائے گئے 12 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ کسی فرد واحد کو اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کون مرتد اور غیر مسلم ہے اور نہ ہی کسی فرد کو یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ لوگوں کو سزا دے کیونکہ اس سے معاشرے میں انارکی کا راستہ ہموار ہوگا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ ملزم کے اقدام نے عام لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کیا جو دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے اس لیے ملزم کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت سزائے موت دی جاتی ہے۔
عدالتی فیصلہ آنے کے بعد ملزم کے سینکڑوں حامیوں نے اڈیالہ جیل کے باہر جج، عدالت اور حکومت کے خلاف زبردست نعرے بازی کی۔ مظاہرین نے ٹائر جلا کر راولپنڈی کی مصروف ترین مری روڈ کو بھی چند گھنٹوں کے لیے بند رکھا ۔ مشتعل ہجوم نے راولپنڈی کے اس مقام پر بھی توڑ پھوڑ کی جو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد یادگار کے طور پر قائم کیا گیا ہے۔
مجرم کے وکیل راجہ شجاع الرحمن کا کہنا ہے: ’’ممتاز قادری صاحب اور ان کے گھر والوں نے اپیل کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن ہماری پوری کوشش یہ ہے کہ ہم قانون پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ اگر قانون نے سلمان تاثیر کے خلاف اپنا ضابطہ مکمل نہ کیا تو ہم کم از کم ممتاز قادری کے ساتھ قانونی طور پر مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں اور کوشش کریں گے کہ ان کے گھر والوں کو منا لیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ جانبدارانہ ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ آج استغاثہ نے اپنے دلائل دینے ہیں لیکن پھر جج صاحب اچانک صبح تھوڑی دیر کے لیے جیل میں آئے اور یہ فیصلہ سنا کر چلے گئے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنوں نے عدالتی فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے معاشرے میں شدت پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ انسانی حقوق کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا: ’’انصاف کا تقاضا پورا کیا عدالت نے ۔۔۔۔ اور لوگوں کو یہ پیغام ملے گا کہ اس قسم کی حرکتیں کرنے کے بعد مجرمانہ سرگرمیوں کا حساب دینا پڑتا ہے اور اس کی سزا بھی بھگتنا پڑتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کے عدالت نے اچھی مثال قائم کی ہے۔‘‘
خیال رہے کہ پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کے اہلکار ممتاز قادری نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو چار جنوری کو اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ جس کے بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے چھ جنوری کو انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کیا اور پھر تقریباً آٹھ ماہ تک یہ مقدمے زیر سماعت رہا۔
انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مجرم کے پاس عدالتی فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کے لیے سات دن کی مہلت ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: افسر اعوان