منقسم برطانوی شہری آج پارلیمان چن رہے ہیں
8 جون 2017اس صورتحال میں برطانوی ذرائع ابلاغ نے ووٹرز کو متحرک کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے ایک روزنامے ڈیلی ایکسپریس نے سرخی لگائی ہے،’’ مے کو ووٹ دو ورنہ تباہی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ‘‘۔ اسی طرح ڈیلی میل نے لیبر پارٹی کے جیریمی کوربن اور ان کے دو ساتھیوں جان میک ڈونلڈز اور ڈیانا ایبٹ کی تصویر کے نیچے لکھا ہے، ’’دہشت گردی کے حمایتی‘‘۔
وزیر اعظم ٹریزا مے نے اپریل میں اچانک انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا تا کہ وہ ایک مضبوط مینڈیٹ کے ساتھ یورپی یونین سے بریگزٹ کے مذاکرات کر سکیں۔ گزشتہ برس سات جون کو اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کے لیے تیئس جون کو ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا تھا۔
تازہ ترین انتخابی جائزوں کے مطابق مے کی کنزرویٹیو ٹوری پارٹی اور حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کے مابین کانٹے کے مقابلے کی توقع ہے۔ تاہم اس سے قبل ان دونوں جماعتوں کی مقبولیت میں تقریباً بیس فیصد کا فرق تھا۔
برطانیہ کے یہ انتخابات ایک ایسے وقت پر ہو رہے ہیں، جب گزشتہ تین مہینوں کے دوران لندن اور مانچسٹر میں ہونے والے تین دہشت گردانہ حملوں میں چونتیس افراد مارے جا چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان انتخابات پر ان واقعات کا اثر واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ ان واقعات کی وجہ سے امیدوارں کو اپنی انتخابی مہم میں وقفہ بھی کرنا پڑا تھا۔
لندن پارلیمان کی ساڑھے چھ سو نشستوں کے لیے تین ہزار سے زائد امیدوار میدان میں ہیں۔ مقامی وقت کے مطابق ووٹنگ صبح سات بجے سے رات دس بجے تک جاری رہے گی، جس کے فوری بعد ابتدائی نتائج سامنے آ جائیں گے۔ تاہم حتمی نتائج کا اعلان جمعے کے روز کیا جائے گا۔