منڈی بہاؤ الدین سے بون تک: ایک پاکستانی پناہ گزین کا سفر
20 اکتوبر 2015جرمنی کے شہر بون میں ایک پرانے ہسپتال کی عمارت کو ان دنوں پناہ گزینوں کے لیے شیلٹر ہاؤس میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ایک کمرے میں شامی، عراقی اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین کے ساتھ، پاکستان کے شہر منڈی بہاؤالدین سے تعلق رکھنے والے شاہنواز رانجھا بھی مقیم ہیں۔ وہ دو ہفتے قبل ہی بون پہنچے تھے۔
ڈی ڈبلیو نے شاہنواز سے پاکستان سے ہجرت کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا، ’’کچھ سال پہلے زمین کے تنازعے پر میرے والد کو قتل کر دیا گیا۔ مخالفین بااثر لوگ تھے، اس لیے وہ قانونی کارروائی سے بچ گئے۔ لیکن ان لوگوں کو خدشہ تھا کہ میں اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں۔ بس، اس لیے انہوں نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے پولیس کو رشوت دی اور میرے خلاف اقدام قتل اور ناجائز اسلحہ رکھنے کا مقدمہ درج کروا دیا۔‘‘
شاہنواز کو پاکستانی پولیس اور عدالتی نظام پر اعتماد نہیں۔ انہیں خدشہ تھا کہ اگر وہ پاکستان میں رکتے تو انہیں بھی ان کے والد کی طرح قتل کر دیا جاتا۔ اس لیے انہوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
اپنے خلاف درج مقدمے میں اشتہاری قرار دیے جانے کے بعد شاہنواز کراچی چلے گئے۔ کراچی میں ان کا رابطہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوا جو انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث تھے۔ انہوں نے شاہنواز کو ایک خطیر رقم کے عوض ایران پہنچانے کا وعدہ کیا۔
کراچی سے تہران
انسانی اسمگلروں نے شاہنواز کو دیگر تارکین وطن کے ساتھ سمندری راستے سے ایک کشتی کے ذریعے ایران کی طرف روانہ کر دیا۔ شاہنواز نے بتایا، ’’یہ سفر کافی خطرناک تھا۔ ایرانی فوجی سمندر میں دکھائی دیتے تو کشتی والا گھنٹوں سمندر میں کشتی روک دیتا تھا۔ خدا خدا کر کے آخر ہم ایران پہنچ گئے۔‘‘
ایران میں داخل ہونے کے بعد وہ ایرانی دارالحکومت تہران پہنچے اور بیس دن تک وہیں رہے۔ جس کے بعد انہوں نے ترکی جانے کا فیصلہ کیا۔ تہران ہی میں انہیں ایسے لوگ ملے، جن کی منزل ترکی تھی۔
ترکی کا رخت سفر
تہران سے شاہنواز ایرانی سرحدی شہر ماکو پہنچے، جہاں سے انہیں پیدل سرحد پار کر کے ترکی پہنچنا تھا۔ شاہنواز کے بقول اس راستے کو ’کالے پہاڑوں کا راستہ‘ کہا جاتا ہے۔ اس سفر کا احوال بیان کرتے ہوئے شاہنواز نے کہا، ’’بارہ گھنٹے تک پہاڑوں پر پیدل چلنا پڑا۔ یہ پہاڑی راستہ انتہائی مشکل تھا، اگر پاؤں پھسل جاتا تو نتیجہ صرف موت تھی۔ ہمارے پاس پانی تک نہ تھا۔ چھ گھنٹے چلنے کے بعد میں بالکل نڈھال ہو گیا اور مجھے یوں لگا کہ میں انہی پہاڑوں میں مر جاؤں گا۔‘‘
لیکن آخر کار شاہنواز ترکی پہنچ گئے۔ انہوں نے ترکی کے مختلف شہروں میں تقریباﹰ تین مہینے گزارے۔ ترکی میں شامی مہاجرین کی بہت بڑی تعداد تھی اور وہاں پہلے سے رہنے والے شامی لوگ ان کی مدد بھی کر رہے تھے۔ لیکن شاہنواز کو نہ کام مل سکا اور نہ رہنے کو جگہ۔ تین مہینے سڑکوں اور پارکوں میں راتیں بسر کرنے کے بعد انہوں نے یونان جانے کا فیصلہ کر لیا۔
یورپ کے لیے تیاری
زیادہ تر مہاجرین ترکی سے یونان پہنچنے کے لیے بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر کرتے ہیں۔ اب تک ہزاروں لوگ ایسی کوششوں کے دوران ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ شاہنواز نے بھی یہی راستہ اپنایا۔ پہلی مرتبہ انہیں 14 دیگر لوگوں کے ساتھ ایک کشتی میں سفر کرنا تھا۔ لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا اور ایک گھنٹہ سمندر میں سفر کرنے کے بعد انہیں ترک محافظوں نے روک لیا۔
شاہنواز نے دوسری مرتبہ قسمت آزمائی کی لیکن ان کے مطابق نصف راستہ طے کرنے کے بعد کشتی الٹ گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ قریب ہی موجود ایک کشتی میں سوار لوگوں نے، جن کا تعلق میڈیا سے تھا، انہیں بچا لیا اور دوبارہ ترک پولیس کے حوالے کر دیا۔ کچھ دن ترک جیل میں گزارنے کے بعد جب وہ رہا ہوئے تو انہوں نے دوبارہ اسی سمندر کا رخ کیا، لیکن اس مرتبہ وہ یونان پہنچنے میں کامیاب رہے۔
ڈی ڈبلیو نے ان سے پوچھا کہ موت کو دو مرتبہ قریب سے دیکھنے کے بعد بھی انہوں نے دوبارہ ایسا خطرہ کیوں مول لیا تو کہنے لگے، ’’لیکن میں نے سوچا پاکستان میں گھر والوں کے سامنے مرنے سے تو بہتر ہے کہ میں سمندر میں مر جاؤں۔‘‘
یونان سے آسٹریا
شاہنواز کے مطابق، ’’یونان کی صورت حال بھی ترکی سے مختلف نہیں۔ وہاں پر بھی میں سڑکوں پر ہی راتیں گزار رہا تھا۔ اگر یونان میں کوئی مستقبل نظر آتا تو میں وہیں رکنے کو ترجیح دیتا۔‘‘
یونان میں موجود زیادہ تر مہاجرین جرمنی کا رخ کر رہے تھے، شاہنواز نے بھی ان کے ساتھ جرمنی جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ ٹرین کے ذریعے مقدونیہ پہنچے، جس کے بعد انہوں نے پیدل سربیا کی سرحد پار کی۔ جب وہ ہنگری کی سرحد تک پہنچے تب تک ہنگری اور سربیا کے مابین سرحد بند کی جا چکی تھی۔
شاہنواز نے مزید کہا، ’’ہم دو دن تک ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ ڈھونڈتے رہے۔ تیسرے دن ہم ہنگری میں داخل ہو گئے لیکن ہنگری کی پولیس نے ہمیں پکڑ لیا اور دو دن تک حراست میں رکھنے کے بعد واپس سربیا بھیج دیا۔‘‘ آخر انہوں نے کروشیا جانے کا فیصلہ کیا، جہاں سے وہ ہنگری میں داخل ہو گئے اور فوراﹰ ہی آسٹریا جانے کے لیے ٹرین کا ٹکٹ لے لیا۔
آخری منزل: جرمنی
آسٹریا سے انہوں نے ٹرین کا ٹکٹ لیا اور جرمنی کی طرف روانہ ہو گئے۔ جرمنی کی حدود میں داخل ہوتے ہی ٹرین روک لی گئی اور پولیس کی تحویل میں انہیں رجسٹریشن سینٹر تک پہنچا دیا گیا۔ طبی معائنے اور دیگر قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد انہیں بون کے ایک شیلٹر ہاؤس میں پہنچا دیا گیا۔ اب انہیں پناہ کی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہیں رکنا ہے۔ انہیں امید ہے کہ ان کی درخواست قبول کر لی جائے گی۔
شاہنواز رانجھا نے اپنے لیے ایک مشکل راستے کا انتخاب کیا۔ وہ جرمنی تک زندہ پہنچ جانے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔ اپنے سفری تجربے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’میں جانتا ہوں کہ پاکستان سے بہت سے لوگ یورپ پہنچنا چاہتے ہیں۔ میں ان سے کہوں گا کہ اگر آپ صرف روزگار کے لیے اس سفر پر نکلنا چاہتے ہیں تو ہر گز اپنا وطن نہ چھوڑیں۔ اس سفر میں ہر قدم پر موت ہے، صرف موت۔‘‘