منگولیا کے خانہ بدوشوں کا تاریک مستقبل
دوکھا قبیلے کے افراد منگولیا کے شمال میں روایتی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ قطبی ہرنوں کے گلہ بان ہیں۔ غیر قانونی شکار کے خلاف نئے حکومتی قانون کی وجہ سے اب ان کی بطور خانہ بدوش شناخت خطرے میں ہے۔
سخت پہاڑی علاقہ
منگولیا کے دوکھا خانہ بدوش روسی سرحد پر واقع سایان پہاڑی علاقے کے جنگلات میں رہتے ہیں۔ یہ صدیوں سے اپنے آباؤ اجداد کی طرح قطبی ہرنوں کے چرواہے ہیں اور ان کا شکار بھی کرتے ہیں۔
قطبی ہرن ہی سرمایہ ہیں
چین اور روس کے درمیان آباد ان خانہ بدوشوں کا انحصار روایتی طور پر مویشیوں پر ہے اور یہی ان کا کل سرمایہ بھی ہے۔ قطبی ہرن یہاں کے پتھریلے اور برفانی ماحول کے مطابق ڈھل چکے ہیں۔ ابھی تک اس خطے کا کوئی بھی سیاسی بحران ان خانہ بدوشوں پر اثرانداز نہیں ہو سکا۔
دور اور الگ تھلگ
دور دراز علاقوں میں رہنے والے خانہ بدوشوں کے دیہات ساگونور کی بنیاد 1924ء میں رکھی گئی تھی۔ اس وقت سوویت یونین منگولیا کے بیرونی حصوں پر قابض ہو چکی تھی۔ یہاں اجتماعی طور پر ماہی گیری کی جاتی تھی اور دوکھا خانہ بدوشوں کو بھی یہاں ملازمتیں فراہم کی گئی تھیں۔
نیشنل پارک
سوویت دور میں شکار کرنے کا ایک مخصوص کوٹہ سسٹم بنایا گیا تھا لیکن نوے کے دہائی میں اس کی پرواہ کیے بغیر چینی مارکیٹ کے لیے بڑی تعداد میں شکار کیا گیا۔ نتیجتاﹰ جانوروں کی تعداد کم ہونے لگی۔ 2012ء میں منگولیا حکومت نے نیا قانون متعارف کرواتے ہوئے اس خطے کو نیشنل پارک کا درجہ دیا اور خانہ بدوشوں کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی۔
ثقافتی شناخت
حکومت نقل و حرکت کو محدود بنائے جانے والے چرواہوں کو ماہانہ معاوضہ ادا کرتی ہے۔ دوکھا خانہ بدوشوں کو نہ صرف اپنے سرمائے بلکہ اپنی شناخت کھو دینے کا خوف بھی ہے۔ کیوں کہ اب یہ خانہ بدوش صرف مخصوص مقامات تک ہی جا سکتے ہیں۔
اتحاد ضروری ہے
دوکھا خانہ بدوشوں کے لیے خاندان کا اتحاد اور روایات کی پاسداری انتہائی اہم ہیں۔ یہ اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کے لیے تمام ہنر سکھاتے ہیں۔ پہلے یہ خانہ بدوش دنیا سے الگ تھلگ رہتے تھے لیکن اب ان کے خیموں تک ٹیلی وژن اور ٹیلی فون پہنچ چکے ہیں۔
شَمَن پرستی
منگولیا کے قدیم خانہ بدوش شمن پرست تھے۔ شمن پرستی کی روایات آج بھی ان خانہ بدوشوں کی زندگی کا حصہ ہیں۔ شمن پرستی شمالی ایشیائی اور شمال امریکی انڈین کا قدیم مذہب ہے، جس میں بدروحوں کو قبضے میں رکھنے کا عقیدہ شامل ہے۔
کھانا خیموں میں
خواتین خیموں میں ہی مکمل خاندان کے لیے کھانا پکاتی ہیں۔ یہ خانہ بدوش زیادہ تر اپنے شکار کردہ جانوروں سے گوشت حاصل کرتے ہیں اور قطبی ہرنوں کی کھال اور دودھ کو استعمال میں لاتے ہیں۔ دودھ سے پنیر اور دہی بناتے ہیں اور چائے بھی پی جاتی ہے۔
بھیڑیے کی ہڈیوں سے زیور
اب تقریبا چالیس دوکھا خاندان ہی باقی بچے ہیں۔ لفظی طور پر ’دوکھا‘ انہیں کہتے ہیں، جن کے پاس قطبی ہرن ہوں۔ سرخ ہرن کا شکار اب منع ہے۔ اب یہ بھیڑیوں کا شکار کرتے ہیں اور ان کی ہڈیوں سے زیور بناتے ہیں۔ یہ زیور اب سیاحوں کو فروخت بھی کیے جاتے ہیں۔
مقامی زبان معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار
دوکھا خانہ بدوشوں کی مقامی زبان کا تعلق ترک زبان سے ہے۔ ان خانہ بدوشوں کے بچوں کو اب اسکولوں میں بھیجا جاتا ہے۔ نئی نسل اپنے آباؤ اجداد کی تووینشن زبان سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ خطرہ ہے کہ مستقبل قریب میں یہ زبان اپنا وجود کھو دے گی۔ اب پینتیس سے چالیس برس کے درمیان دوکھا کی آخری نسل اپنی مادری زبان بولتی ہے۔