1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
میڈیاایشیا

مودی پر دستاویزی فلم کے حوالے سے بی بی سی کو عدالتی نوٹس

23 مئی 2023

دہلی ہائی کورٹ نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دستاویزی فلم سے متعلق مقدمے پر جواب طلب کیا ہے۔ بھارت میں بی بی سی کے دفاتر پر چھاپوں کے بعد عدالت کی جانب سے بھی سمن جاری کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Rh3w
BBC und Gary Lineker einigen sich
تصویر: Jordan Pettitt/PA/dpa/picture alliance

بھارتی دارالحکومت دہلی کی ہائی کورٹ نے وزیر اعظم نریندر مودی پردستاویزی فلم میں ان کی مبینہ ہتک عزت کے لیے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو سمن جاری کیا ہے۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم رواں برس کے اوائل میں پہلی بار نشر کی گئی تھی۔ 

بھارت میں بی بی سی کے دفاتر پر ٹیکس حکام کے چھاپے

چند ماہ قبل بھارتی محکمہ ٹیکس کے حکام نے ادارے کے دہلی اور ممبئی کے دفاتر پر چھاپے کی کارروائی کی تھی، جس کی وجہ سے اس کا کام کاج بری طرح متاثر ہوا تھا۔ حکومت نے بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی بھی عائد کر دی تھی۔

نریندر مودی کے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم 'پروپیگنڈا' ہے، بھارت

اس فلم میں سن 2002 کے گجرات فسادات کے دوران مودی کی قیادت پر سوال اٹھائے گئے ہیں، جس میں کم از کم 1,000 لوگ مارے گئے تھے اور ہلاک ہونے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ حالانکہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے۔

بی بی سی کا تازہ بحران، دور رَس اثرات

نریندر مودی سن 2001 سے 2014 تک مغربی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ سن 2014 میں انہوں نے قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور وزیر اعظم بن گئے۔

فلم کے خلاف مقدمہ کیا ہے؟

ہتک عزت کا مقدمہ گجرات میں مقیم ایک غیر منافع بخش تنظیم 'جسٹس آن ٹرائل' کی طرف سے دائر کیا گیا ہے۔ ادارے کا الزام ہے کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم، 'انڈیا: دی مودی کوئسچن' بھارت، اس کی عدلیہ اور وزیر اعظم مودی کی ساکھ پر ایک بد نما داغ  لگانے کا کام کرتی ہے۔

Indien Neu Delhi Polizei-Razzia bei BBC-Büro
بھارتی ٹیکس حکام نے فروری میں دہلی اور ممبئی میں بی بی سی کے دفاتر کا معائنہ کیا اور مالیاتی جرائم کی ایجنسی نے اپریل میں غیر ملکی کرنسی کے قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں پر براڈکاسٹر کے خلاف تحقیقات بھی شروع کیںتصویر: SAJJAD HUSSAIN/AFP

جسٹس آن ٹرائل کے وکیل سدھارتھ شرما کا کہنا ہے کہ مقدمہ اس بنیاد پر دائر کیا گیا تھا کہ دستاویزی فلم نے ''بد نیتی سے بھارت کو بدنام

 کیا۔''  شرما نے کہا کہ عدالت نے بی بی سی کو سمن جاری کیا ہے اور کیس کی اگلی سماعت 23 ستمبر کو مقرر کی ہے۔

بی بی سی کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ''ہم عدالتی کارروائی سے آگاہ ہیں اور اس مرحلے پر مزید تبصرہ کرنا نامناسب بات ہو گی۔''

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گزشتہ مارچ میں لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کی ''سکیورٹی کی خلاف ورزیوں '' اور اس سے پہلے جنوری میں دستاویزی فلم کے واقعات کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہوئے ہیں۔

بی بی سی کی دستاویزی فلم پر بھارت نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک متعصب ''پروپیگنڈا'' فلم قرار دیا اور سوشل میڈیا پر بھی اس کی کسی بھی کلپس کو شیئر کرنے سے روک دیا۔

بھارتی ٹیکس حکام نے فروری میں دہلی اور ممبئی میں بی بی سی کے دفاتر کا معائنہ کیا اور مالیاتی جرائم کی ایجنسی نے اپریل میں غیر ملکی کرنسی کے قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں پر براڈکاسٹر کے خلاف تحقیقات بھی شروع کیں۔

بی بی سی کی فلم میں کیا ہے؟

اس دستاویزی فلم میں برطانیہ کی جانب سے کرائی گئی ایک انکوائری کی رپورٹ شامل ہے، جس کے مطابق گجرات فسادات کے دوران ''تشدد کی ایک ایسی منظم مہم چلائی گئی جس میں نسلی تطہیر کی تمام مثالیں موجود تھیں۔'' رپورٹ میں اس کے لیے مودی کو براہ راست مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔

دستاویزی فلم میں انکشاف کیے جانے سے قبل تک برطانوی حکومت نے مذکورہ رپورٹ کو کبھی بھی عام نہیں کیا تھا۔ دستاویزی فلم کے مطابق انکوائری ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ مودی نے پولیس کو واضح طور پر حکم دیا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کو روکنے کی کوشش نہ کریں۔

اس دستاویزی فلم میں ایک سابق برطانوی سفارت کار کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ تشدد کا منصوبہ آرایس ایس کی ذیلی ایک تنظیم شدت پسند ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے تیار کیا تھا۔ مودی بچپن میں ہی آر ایس ایس سے وابستہ ہوگئے تھے۔

انکوائری ٹیم کے مطابق مذکورہ سفارت کار کا کہنا تھا کہ ''ریاستی حکومت کی جانب سے آنکھ موند کر چھوٹ دیے بغیر وی ایچ پی کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانا ممکن نہیں تھا۔''

تاہم مودی ان تمام الزامات سے انکار کرتے رہے ہیں۔

بھارتی خاتون صحافی رعنا ایوب نے خاموش رہنے سے انکار کردیا