مودی اپنا ڈرامہ بند کر کے امن کا راستہ اپنائیں، خورشید شاہ
30 ستمبر 2016قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے خبر دار کیا ہے کہ اسلام آباد ملکی سلامتی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا، ’’ ہم کسی بھی جارحیت کے خلاف ملک کا دفاع کریں گے۔ پوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ پاکستان کی امن پسندی کی پالیسی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ بچہ بچہ دفاعِ وطن کے لیے تیار ہے۔کسی کو بھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘
ماضی میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کا پرچار کرنے والے نواز شریف نے کہا، ’’کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ بھارت کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کچل نہیں سکتا۔‘‘
کابینہ نے سرجیکل اسٹرائیک کے بھارتی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا، ’’بھارتی فائرنگ، دوطرفہ معاہدوں اور بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کی افواج نے بھارتی فائرنگ کا بھرپور جواب دیا۔‘‘
خورشید شاہ نے اپنے بیان میں کہا، ’’ہم صبر و تحمل کی بات کر رہے ہیں۔ مودی کو اپنا ڈرامہ بند کر کے امن کا راستہ اپنانا چاہیے۔ بھارت کے جھوٹ کا پردہ چاک ہوگیا ہے۔ کشمیر میں بھارت کی بربریت پوری دنیا پر واضح ہے۔‘‘
یہ سخت بیانات ایک ایسے وقت میں آئے ہیں، جب اڑی حملے کے بعد بھارت نے پاکستان میں سرجیکل اسڑائیکس کا دعویٰ کیا۔ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے جوابی حملے میں بھارتی فوجی بھی ہلاک کیے ہیں۔ معروف صحافی حامد میر نے دعویٰ کیا ہے کہ چودہ بھارتی فوجی ہلاک کیے گئے ہیں۔ تاہم اس دعوے کی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں کی گئی۔ بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کا ایک سپاہی غلطی سے سرحد پار کر گیا ہے اور یہ کہ اسے واپس کیا جانا چاہیے۔ پاکستان نے اس بھارتی دعوے کی تردید کی ہے۔
کشیدگی کے یہ سائے زندگی کے دوسرے شعبوں کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ جمعرات کو پاکستان اور بھارت کی اسٹاک ایکسچینجوں میں مندی کا رجحان رہا جب کہ اس صورتِ حال نے چین، امریکا اور اقوام متحدہ کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ وہ دونوں ممالک سے مذاکرات کی درخواست کریں۔ کشیدگی کی لپیٹ میں پاکستانی گلوکاروں کے بھارتی شہروں میں کنسرٹس، بھارتی فلمیں، پاکستانی ڈرامے، پاکستانی فنکار ، واہگہ بارڈ کی پریڈ اور دوستی بس بھی آئے۔ آج پاکستان میں فضاء سوگوار رہی۔ ہلاک ہونے والے دو فوجیوں میں سے ایک کی نماز جنازہ فیصل آباد میں ادا کی گئی۔ اس موقع پر کئی ٹی وی چینلز نے قومی نغمات کی دھنیں بجائیں۔
تجزیہ نگاروں کا تاہم خیال ہے کہ بات جنگ تک نہیں جائے گی۔ قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر فرحان حنیف صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو موجودہ صورت حال کے حوالے سے بتایا، ’’بھارت کے ڈی جی ایم او نے کہا ہے کہ انہوں نے سرجیکل اسٹرائیک کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں اور یہ کہ وہ مذید کسی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتے۔ پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ سرجیکل اسٹرائیک ہوئی ہی نہیں تو پاکستان کوئی بڑا عسکری ردِ عمل کیسے دے سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کشیدگی بتدریج کم ہوجائے گی کیونکہ امریکا اور اقوام متحدہ اس مسئلے کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ دونوں ممالک پر عالمی برادری کا غیر محسوس دباؤ ہے اور اِنہیں صورتِ حا ل بہتر کرنا پڑے گی ۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں اپنے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے بی جے پی ایسا کر رہی ہے۔ پاکستان میں بھارت دشمنی کے نعرے پر ووٹ نہیں پڑتے لیکن وہاں ایسا ہوتا ہے۔ پاکستان سے کشیدگی بی جے پی کے لیے ریاستی انتخابات میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ بھارت کو جموں وکشمیر میں صورتِ حال کو بہتر کرنا چاہیے ورنہ اس سے خطے میں کسی وقت بھی کشیدگی کو مذید ہوا مل سکتی ہے۔‘‘
تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ موجودہ کشیدگی سے نواز شریف کی بھارت سے مذاکرات کی پالیسی کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے اور حکمران پارٹی کے سینیٹر مشاہد اللہ خان اِس سے متفق نظر آتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’میاں صاحب کو بھارتی پالیسی سے بہت مایوسی ہوئی۔ نواز شریف، مودی کے وزیرِاعظم بننے پر بھارت گئے۔ ہم نے اُنہیں مثبت اشارے دیے لیکن انہوں نے کشمیر میں ظلم کی انتہا کردی۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہے لیکن یہ کیسے بھارتی جمہوری رہنما ہیں جو مذاکرات سے راہ فرار چاہتے ہیں۔ سارک سمٹ مسائل پر بات چیت کرنے کا ایک بہتر موقع تھا لیکن بھارت نے اِس کو گنوادیا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اگر بھارت کوئی مثبت اشارہ دے گا اور امن پسندی کی بات کرے گا تو مسلم لیگ اور نواز شریف تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ خطے میں امن ہو اور دونوں ممالک سے غربت ختم ہو اور خوشحالی آئے لیکن کشمیر میں ہونے والے ظلم پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔‘‘
بھارت کے ساتھ کشیدگی کے تناظر میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو پیر تین اکتوبر کو ایک ملاقات کی دعوت دی ہے۔ اس ملاقات میں سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو موجودہ صورتحال پر بریفنگ دی جائے گی۔